تشریح:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز خود نا پاک و نجس ہو اس سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی، امام احمد اور دارقطنی کی روایت میں ((ائْتِنِي بِغَيْرِهَا)) ’’اس کے بدلے دوسرا پتھر لے آؤ‘‘ کا اضافہ ہے جس سے معلوم ہوا کہ قضائے حاجت کے بعد تین پتھر استعمال کرنا واجب ہے خواہ صفائی اس سے کم ہی میں کیوں نہ حاصل ہو جائے، اور اگر تین سے بھی مطلوبہ صفائی حاصل نہ ہو تو مزید بھی پتھر استعمال کئے جاسکتے ہیں البتہ ان کی تعداد طاق ہونی چاہئے، آج کل صفائی کے لیے ٹشو پیپر استعمال ہوتے ہیں ان کی تعداد بھی اتنی ہی ہونی چاہئے۔
۲؎: متابعت سے مراد ایک راوی کا دوسرے کے ساتھ اس حدیث کی روایت میں شریک ہونا ہے، اس کے جاننے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر راوی ضعیف ہے تو اس کی حدیث کو تقویت حاصل ہو جاتی ہے اور اگر ثقہ ہے تو اس کا تفرد ختم ہو جاتا ہے۔
۳؎: واضح رہے کہ امام ترمذی نے اسرائیل کی روایت کو زہیر کی روایت پر جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں جگہ دی ہے تین وجہوں سے ترجیح دی ہے۔
(الف) ابواسحاق کے تلامذہ میں اسرائیل: زہیر، معمراور دیگر لوگوں سے زیادہ ثقہ اور ابو اسحاق سبیعی کی حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے ہیں۔
(ب) قیس بن ربیع نے اسرائیل کی متابعت کی ہے۔
(ج) اسرائیل کا سماع ابواسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے ہے، ان کی آخری عمر میں نہیں ہے اس کے بر خلاف زہیر کا ابواسحاق سے سماع ان کی آخری عمر میں ہے، لیکن صاحب تحفہ الأحوذی کے نزدیک یہ تینوں وجہیں محل نظر ہیں، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تحفہ الاحوذی ج۱ص۲۸۔
صاحب تحفۃالاحوذی کے معارضات کا خلاصہ یہ ہے کہ (۱) بقول امام ابو داؤد: زہیر اسرائیل کے مقابلہ میں أثبت ہیں۔
(۲) زہیر کی بھی متابعت موجود ہے بلکہ دو دو متابعت ہے۔
(۳) بقول ذہبی: امام احمد کہتے ہیں کہ زہیر نے ابو اسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے سنا ہے جبکہ اسرائیل نے آخری عمر میں سنا ہے، علاوہ ازیں اگر اسرائیل کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں تو ان کی روایت ابو عبیدہ سے ہے اور ابوعبیدہ کا اپنے باپ ابن مسعود سے سماع نہیں ہے تو روایت کوضعیف ماننا پڑے گا، جبکہ زہیر کی روایت سے حدیث متصل ہوتی ہے، اور اکثر أئمہ نے اسے صحیح ہی قرار ديا ہے۔