تشریح:
وضاحت:
۱؎: ’’اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ ، جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں۔ (انفال۲۴) اس حکم ربانی کی بنا پرصحابہ پر واجب تھاکہ آپﷺ کی پکار کا جواب دیں خواہ نماز ہی میں کیوں نہ ہو، لیکن ان صحابی نے یہ سمجھا تھا کہ یہ حکم نماز سے باہر کے لیے ہے ، اس لیے جواب نہیں دیا تھا۔
۲؎: چونکہ اس میں سات آیتیں ہیں اس لیے اسے سبع کہاگیا، اور ہر نماز میں یہ سورت دہرائی جاتی ہے، اس لیے اسے مثانی کہا گیا، یا مثانی اس لیے کہا گیا کہ اس کا نزول دو مرتبہ ہوا ایک مکہ میں دوسرا مدینہ میں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين) .
إسناده: حدثنا أحمد بن أبي شعيب الحَرَّاني: ثنا عيسى بن يونس: ثنا ابن
أبي ذئب عن المَقْبُرِي عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات على شرط الشيخين ولم يخرجاه.
وعزاه المنذري- كما في "عون العبود مما (1/544) - للبخاري والترمذي! وما
أظنه إلا من أوهامه! ثم رأيته في "البخاري " (رقم 4704) : حدثنا آدم: حدثنا ابن أبي ذئب... به والحديث أخرجه أحمد (2/448) ، والطحاوي في "المشكل " (2/78) من
طرق أخرى عن ابن أبي ذئب... به. وله طريق اْخرى عن أبي هريرة مرفوعاً... به مختصراً؛ بلفظ:
".. وإنها سبع من المثاني، والقرآن العظيم الذي أوتيته "؛ وفيه قصة خروجه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ على أبي بن كعب وهو يصلي، ومناداته صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إياه... لْحو قصة أبي سعيد الأتية.أخرجه الترمذي (2/143) ، وأحمد (2/413) ، والحاكم (1/557) ، وقال: " صحيح على شرط مسلم ". وقال الترمذي: " حسن صحيح ". وهو كما قالوا.