موضوعات
![]() |
شجرۂ موضوعات |
![]() |
ایمان (21675) |
![]() |
اقوام سابقہ (2925) |
![]() |
سیرت (18010) |
![]() |
قرآن (6272) |
![]() |
اخلاق و آداب (9763) |
![]() |
عبادات (51486) |
![]() |
کھانے پینے کے آداب و احکام (4155) |
![]() |
لباس اور زینت کے مسائل (3633) |
![]() |
نجی اور شخصی احوال ومعاملات (6547) |
![]() |
معاملات (9225) |
![]() |
عدالتی احکام و فیصلے (3431) |
![]() |
جرائم و عقوبات (5046) |
![]() |
جہاد (5356) |
![]() |
علم (9419) |
![]() |
نیک لوگوں سے اللہ کے لیے محبت کرنا |
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْجُمُعَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْجُمُعَةِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ)
حکم : حسن صحیح
500 . حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي الْجَعْدِ يَعْنِي الضَّمْرِيَّ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ فِيمَا زَعَمَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَسَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي الْجَعْدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ اسْمِ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّ فَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَهُ وَقَالَ لَا أَعْرِفُ لَهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ قَالَ أَبُو عِيسَى وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو
جامع ترمذی:
كتاب: جمعہ کے احکام ومسائل
باب: بغیرعذرکے جمعہ چھوڑنے پر وارد وعید کا بیان
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
500. ابو الجعد ضمری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو جمعہ تین بار سستی۱؎ سے حقیر جان کر چھوڑ دے گا تو اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابو الجعد کی حدیث حسن ہے۔۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے ابو الجعد ضمری کا نام پوچھا تو وہ نہیں جان سکے۔۳- اس حدیث کے علاوہ میں ان کی کوئی اور حدیث نہیں جانتا جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہو۔۴- ہم اس حدیث کو صرف محمد بن عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔