تشریح:
(1) عمرو بن میمون رحمۃ اللہ علیہ ہر جمعرات کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے کیونکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہفتہ وار علمی مجلس منعقد کیا کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ آپ سے ایک سے زیادہ بارعلم و وعظ کی مجلس قائم کرنے کی درخواست کی گئی تو فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مناسب موقع اور وقت کے لحاظ سے نصیحت کرتے تھے تاکہ سامعین اکتاہٹ کا شکار نہ ہو جائیں۔ (صحيح البخاري، العلم، باب من جعل لأهل العلم أياما معلومة، حديث:70) اس لیے علم سکھانے یا وعظ و نصیحت کرنے کے لیے ایک وقت مقرر کر لینا مناسب ہے، تاکہ لوگ آسانی سے استفادہ کر سکیں۔
(2) حدیث میں (عَشِيَّةً) کا لفظ ہے۔ جس کا ترجمہ ہم نے دن ڈھلے کیا ہے۔ عربی زبان میں (عَشِيَّةً) کا لفظ سورج ڈھلنے سے غروب آفتاب تک کے لیے بولا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس مجلس کا وقت ظہر کی نماز کے بعد مقرر ہو یا عصر کے بعد۔ والله أعلم
(3) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حدیث کی لفظاً روایت سے اس لیے اجتناب کرتے تھے کہ کوئی ایسا لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہو جائے جو آپ نے نہیں فرمایا۔ تاہم بہت سے صحابہ کرام روایت باللفظ ہی کرتے تھے۔ حدیث کی روایت دونوں طرح درست ہے۔ روایت باللفظ افضل ہے، اور روایت بالمعنی میں احتیاط زیادہ ہے۔
(4) روایت حدیث کے آداب میں یہ بھی ہے کہ اگر حدیث کے الفاظ پوری طرح یاد نہ ہوں تو حدیث بیان کر کے کہے: (اَوْ كَمَا قَالَ) یہ الفاظ، یا جو الفاظ آپ نے فرمائے جیسا کہ آئندہ روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا عمل مذکور ہے۔