تشریح:
(1) یہ روایت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک سنداً ضعیف ہے، صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے لیکن اس میں دو مقامات سے ممانعت کا ذکر ہے، گھاٹ کا ذکر نہیں۔ دیکھیے (صحیح مسلم، الطھارة، باب النھی عن التخلی فی الطرق والظلال، حدیث:٢٦٩) علاوہ ازیں شیخ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے، اس حدیث سے یہ استدلال صحیح ہے کہ گھاٹ سمیت ایسی تمام جگہوں پر بول وبراز کرنا صحیح نہیں جس سے دوسروں کو تکلیف ہو۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الأرواء،حدیث:62)
(2) گھاٹ سے مراد دریا یا تالاب وغیرہ کا کنارہ ہےجہاں سے پانی لینے کے لیے یا دوسرے مقاصد کے لیے عام لوگوں کی آمدرفت ہو۔
(3) سائے سے مراد وہ سایہ ہے جہاں گرمی اور دھوپ سے بچنے کے لیے لوگ ٹھرتے ہوں یہاں پاخانہ کرنے سے عام لوگوں کو تکلیف ہوگی اور وہ اس سائے سے فائدہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اگر کوئی درخت ایسی جگہ اگا ہوا ہو جہاں عام لوگوں کو آنے جانے کی ضرورت نہیں پرتی تو اس کے سائے میں قضائے حاجت کی گنجائش ہے جیسے کہ حدیث:339،338)) میں ذکر ہوگا۔
(3) راستے کے درمیان مراد یہ ہے کہ عین راستے میں قضائے حاجت نہ کی جائے۔ جس سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہو۔ ہاں راستے سے ایک طرف ہٹ کر جہاں سے لوگ نہیں گزرتے فراغت حاصل کی جاسکتی ہے-