تشریح:
(1) عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ اگر کسی بیمار کے پاس کوئی تندرست آدمی اٹھتا بیٹھتا ہے یا اس کے ساتھ کھاتا پیتا ہے یا اس کا لباس استعمال کرتا ہے تو اسے بھی وہی بیماری لگ جاتی ہے جو مریض کو تھی۔ عرف عام میں ایسی بیماریوں کو متعدی بیماریاں کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیماری اس طرح ایک سے دوسرے کو نہیں لگتی، البتہ ایسا ہو سکتا ہے کہ جس وجہ سے پہلے آدمی کے جسم میں مرض پیدا ہوا ہے، وہی وجہ کسی اور شخص میں بھی پائی جائے اور وہ بھی بیمار ہو جائے۔ جدید طب میں جراثیم کا نظریہ بہت مقبول ہے لیکن یہ جراثیم بھی بحکم الہی اثر انداز ہوتے ہیں، گویا دوسرے مریض کے بیمار ہونے کی اصل وجہ حکم باری تعالیٰ ہے نہ کہ مریض کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا۔ اس کے علاوہ ہومیو پیتھک نظریہ علاج جراثیم کو امراض کا سبب ہی تسلیم نہیں کرتا، اس لیے اس نظریے کے مطابق بھی مریض کا ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہونا ایک غلط تصور ہے۔
(2) عرب لوگ پرندوںاور جنگلی جانوروں کے گزرنے سے شگون لیتے تھے۔ کوئی شخص کوئی کام کرنا چاہتا تو کسی بیٹھے ہوئے پرندے یا ہرن وغیرہ کو پتھر مار کر بھگاتا، اگر وہ دائیں جانب جاتا تو سمجھا جاتا کہ کام صحیح ہو جائے گا، اگر بائیں طرف جاتا تو سمجھا جاتا کہ کامیابی نہیں ہو گی۔ اس طرح کے کام محض توہم پرستی کا مظہر ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ آج کل بھی اس طرح کے توہمات پائے جاتے ہیں، مثلا: کسی لنگڑے یا یک چشم انسان سے ملاقات ہو جائے تو اسے نحوست کا باعث قرار دینا۔ کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو سمجھنا کہ کام نہیں ہو گا یا کسی خاص عدد (مثلا تیرہ کا عدد) یا کسی خاص دن (مثلا منگل) یا کسی خاص مہینہ (مثلا ماہ صفر یا شوال) کو نامبارک قرار دینا بھی اسی میں شامل ہے۔ کوئی نقش بنا کر اس کے خانوں میں انگلی رکھنا یا اس قسم کے فال ناموں سے قسمت معلوم کرنے کی کوشش کرنا سب ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔
(3) مشرکین عرب میں ایک غلط تصور یہ بھی پایا جاتا تھا کہ اگر متقول کا بدلہ نہ لیا جائے تو اس کی روح اُلو کی شکل اختیار کر کے بٹھکتی اور چیختی پھرتی ہے اور انتقام کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس غلط تصور کی وجہ سے ان لوگوں میں نسل در نسل انتقام اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہتا تھا، حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی، اسی طرح اُلو کو منحوس تصور کرنا غلط ہے۔ وہ بھی دوسری مخلوقات کی طرح اللہ کی ایک مخلوق ہے جس کا انسانوں کی قسمت سے کوئی تعلق نہیں۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 427 :
أخرجه البخاري ( 10 / 139 ، 197 - 198 ) و مسلم ( 7 / 31 ) و أبو داود ( 2 /
158 ) و أحمد ( 2 / 267 ) من طريق ابن شهاب أخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن عن
أبي هريرة به مرفوعا . و كذلك أخرجه الطحاوي في " شرح المعاني " ( 2 / 378
) . و له طريق أخرى رواه أبو صالح عنه . أخرجه البخاري ( 10 / 176 ) و الطحاوي
دون قول الأعرابي و جوابه . و رواه كذلك العلاء بن عبد الرحمن عن أبيه عنه .
أخرجه أبو داود ( 2 / 158 ) و أحمد ( 2 / 397 ) . و سنده صحيح على شرط مسلم
و فيه : " نوء " بدل : " طيرة " و قد أخرجه مسلم أيضا ( 7 / 32 ) .
و له شاهد من حديث ابن عمر بنحو حديث أبي سلمة . أخرجه ابن ماجه ( 1 / 44 ، 2 /
363 ) و أحمد ( 2 / 24 - 25 ) من طريق وكيع حدثنا أبو جناب عن أبيه عن ابن عمر
مرفوعا . و هذا سند ضعيف ، أبو جناب اسمه يحيى بن أبي حية ضعيف و ولده مجهول .
و لابن عمرو حديث آخر مختصرا و يأتي قريبا برقم ( 788 ) .
و شاهد آخر من حديث ابن عباس . أخرجه الطحاوي ( 2 / 277 - 278 ) و أحمد ( 1 /
269 ، 328 ) من طريق سماك عن عكرمة عنه . و إسناده صحيح على شرط مسلم .
و رواه ابن ماجه دون قول الأعرابي .
و شاهد ثالث عن ابن مسعود يأتي ( 1152 ) بلفظ : " لا يعدي شيء شيئا " و ورد من
حديث أبي هريرة أيضا . و هو : " لا عدوى و لا طيرة و لا هامة و لا صفر و فر من
المجذوم كما تفر من الأسد " .