تشریح:
فوائد ومسائل:(1) معلوم ہوا کہ رات کا آخری تیسرا پہر بہت زیادہ افضل ہے۔
(2) ایسی آیات قرآن اور احادیث صحیحہ کو، جن میں اللہ عزوجل کی اس قسم کی صفات (مثلاً) اترنا، آنا، کلام کرنا، ہنسنا، تعجب کرنا اور عرش پر بیٹھنا وغیرہ کا ذکر ہے، محققین اہل السنۃ والجماعۃ (یعنی اہل الحدیث) ان کے ظاہر پرمحمول کرتے ہیں، وہ کسی تاویل، تشبیہ یا تعطیل و تحریف کے قائل نہیں اور نہ ان کی حقیقت اور کنہ ہی کے درپے ہوتےہیں۔ یہ صفات ایسی ہی ہیں جیسا کہ اس کی ذات اقدس کے شایان شان ہیں۔ جس طرح اللہ عزوجل کی ’’ذات‘‘ دیگر اور ذوات کے مشابہ نہیں، اسی طرح اس کی صفات بھی کسی سے مشابہ نہیں۔ ﴿لَيسَ كَمِثلِهِ شَىءٌ ۖ وَهُوَ السَّميعُ البَصيرُ ﴾ سورۃ شوریٰ:11، جو لوگ مندرجہ بالاحدیث کی تاویل یوں کردیتے ہیں کہ اللہ کی رحمت اترتی ہے یا اس کا امر اترتا ہے وہ ذار غور کریں کہ یہ جملے:’’کون ہے جو مجھ سے دعا کرے، میں قبول کروں۔ کون ہے جو مجھ سےمانگے، میں اس کو دوں۔ کون ہے جو مجھ سے معافی چاہے، میں اس کو معاف کروں۔‘‘ کس طرح رحمت یا امر پر منطبق ہوسکتے ہیں۔ یہ بلاشبہ رب کبریاء ہی سے متعلق ہیں، نیزرحمت کا اتر کر آسمان دنیا تک رہ جانا مخلوق کے لیے کیونکر نفع آور ہے۔ حالانکہ وہ خود فرماتا ہے: ﴿وَرَحمَتى وَسِعَت كُلَّ شَىءٍ﴾ سور الاعراف:156، الغرض ظاہر قرآن و حدیث پر ایمان اور اس کے مطابق عمل اور اسوۂ رسول اللہﷺ کا اتباع اورسبیل المومنین (صحابہ کرام) اختیار کرنا ہی ایک مسلمان کے لیے باعث نجات و تقرب ہے (فوائد ازعلامہ وحیدالزمان)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجه البخاري بإسناد المؤلف، وأخرجه هو أيضا ومسلم وأبو عوانة في صحاحهم ، وصححه الترمذي) . إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن ابن شهاب عن أبي سلمة بن عبد الرحمن وعن أبي عبد الله الأغر عن أبي هريرة.
قلت: إسناده صحيح على شرطهما من الطريقين؛ وأبو عبد الله: اسمه سلمان الأغر؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث في الموطأ (1/214/30) . وأخرجه البخاري (1/289) ... بإسناد الؤلف عنه. ثم أخرجه هو (4/190 و 479) ، ومسلم (2/175) ، وابن نصر (35) ، وأحمد (2/487) كلهم عن مالك... به. وأخرجه ابن ماجه (1366) ، وأحمد (2/264 و 267) من طرق أخرى عن ابن شهاب... به. وتابعه أبو إسحاق قال: حدثني الأغر أبو مسلم قال: أشهد على أبي سعيد وأبي هريرة يشهدان له على رسول الله أنه قال... فذكره نحوه. أخرجه أبو عوانة (2/288- 289) ، والطيالسي (2232 و 2385) ، وأحمد (2/383) .، وأخرجه مسلم، وأبو عوانة، والترمذي (2/307) والدارمي (1/346- 347) ، والطيالسي (2516) ، وأحمد (2/258 و 282 و 419 و 433 و 504 و 509 و 521) من طرق أخرى عن أبي هريرة... به نحوه. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . وللحديث شواهد كثيرة عن جمع من الصحابة، قد خرجت طائفة منها في إرواء الغليل في تخريج منار السبيل (450) .