اردو حاشیہ:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو نیت کی اہمیت یا اس کے احکام ومسائل بیان کرنے کے لیے پیش نہیں کیا کیونکہ انھوں نے اس مقدمے کے لیے کتاب الایمان کے آخر میں ایک الگ باب بعنوان (بَابٌ: مَا جَاءَ إِنَّ الأَعْمَالَ بِالنِّيَّةِ وَالحِسْبَةِ) قائم کیا ہے۔ حضرت امام غالباً اس مقام پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عمل کا تعلق وحی کے ساتھ بھی ہے اور عامل کی نیت کے ساتھ بھی ،وہ اس طرح کہ انسان کو اس عالم رنگ وبومیں ایسے اعمال کے بجالانے کا مکلف ٹھہرایاگیا ہے جن کا اچھا یا بُرا ہوناوحی الٰہی پر موقوف ہے۔پھر اللہ کے ہاں ان اعمال کا اعتبار کیا جائے گا جو خلوص نیت پر مبنی ہوں گے،یعنی نہ تو کوئی انسان وحی کے بغیر اچھے اعمال اختیارکرسکتا ہے اور نہ نیت کے بغیر اچھے اعمال لائق اعتبار ہی ہوسکتے ہیں۔2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آیت کریمہ سے بھی عظمت وحی کو ثابت کرتے ہیں ،ان کا استدلال آیت کے ان الفاظ سے ہے:(إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ) یعنی ہم نے وحی بھیجی ہے۔مقصد یہ ہے کہ کسی معمولی ذات نے وحی کا نزول نہیں کیا کہ اس کی عظمت وتقدیس میں کچھ قصور(کمی) ہو۔پھر حدیث نیت لا کر یہ اشارہ فرمایا کہ اتنی عظیم الشان وحی کے نزول کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اعلیٰ درجے کااخلاص نیت ہی ہے۔3۔اس حدیث کی مذکورہ بالا عنوان سے بایں طور مطابقت بیان کی گئی ہے کہ اگرچہ نبوت ورسالت ایسی چیز نہیں ہے جسے محنت وریاضت کے بل بوتے پر حاصل کیاجاسکے بلکہ یہ خاص عنایات ربانی کا نتیجہ ہے، تاہم اہل دنیا سے کٹ کر اللہ کی طرف ہجرت کرکے غارحرامیں خلوت گزیں ہونا عطیہ نبوت ملنے کا سبب ضرور بنا ہے۔ اور یہ خلوت گزینی بھی اللہ کے فضل اوراحسان ہی سے نصیب ہوئی ۔گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر سے غارحرا تک ہجرت کرنا نزول وحی کامقدمہ اور مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کرنا ظہور وحی کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوا کیونکہ مکے میں کفار کی مخالفت کی وجہ سے وحی کو عام کرنے کا موقع نہ مل سکا اور ہجرت مدینہ کے بعد اس وحی کا خوب چرچا ہوا۔ (المتواري علي تراجم ابواب البخاري ص:49۔) ۔4۔اس حدیث میں اعمال سے مراد انسان کے وہ اختیار افعال ہیں جو عبادات کے زمرے میں آتےہیں کیونکہ عبادات ہی میں اخلاص اور حسن نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔فساد نیت سے عبادات کی ادائیگی نہ صرف ثواب سے محرومی کا باعث ہے بلکہ اللہ کے ہاں اس پر سخت سزا کابھی اندیشہ ہے۔اس کے برعکس عادات ومعاملات نیت کے بغیر بھی وقوع پذیر ہو جاتے ہیں،مثلاً:کوئی شخص کسی کو ہزار روپے دیتا ہے تو دوسرے کی ملکیت ثابت ہوجائے گی،البتہ اگر وہ اس میں نیت اللہ کی رضا کرلے تو پھر اخلاص آجانے سے اسے بھی عبادت کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے جس پر اللہ کے ہاں اجروثواب کا وعدہ ہے۔5۔چونکہ نیت دل کا فعل ہے ،اس لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا تکلف محض ہے،نیز جن عبادات واعمال کا تعلق ہی دل سے ہے،مثلاً:خشیت وانابت اور خوف ورجاوغیرہ،ان میں سرے سے نیت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔بہرحال حج اور عمرے کی نیت کے علاوہ کسی بھی عمل کی نیت کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ بولنا بدعت ہے۔ہرعمل کے لیے دل میں جو نیت ہوتی ہے،وہی کافی ہے۔