تشریح:
توضیح:امام بخاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا قرآن کو بھولنا دو طرح سےہوسکتا ہے ۔ ایک عارضی ، دوسرا دائمی۔ عارضی نسیان بنی آدم کی طبائع میں فطرتاً رکھا گیا ہے، اس میں رسول اللہﷺ بھی شامل ہیں۔ نماز کی رکعات بھول جانے پر آپ فرماتے ہیں:(انما انا بشر انسیٰ کما تنسون) صحیح بخاری، الصلاۃ، حدیث:401 وصحیح مسلم، المساجد، حدیث:572) ’’ میں بشر ہوں، جیسے تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔‘‘ اور اس قسم کے نسیان کاازالہ ہوجاتا ہے، کبھی از خود اور کبھی دوسرے کےیاد دلانے سے اور اللہ عزوجل نے حفاظت قرآن کا ذمہ لیا ہوا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ﴾ سورۃ الحجر :9،’’ ہم نے اس ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘نسیان کی دوسری قسم یہ ہے کہ آپ کے سینے سے ان آیات کا حفظ بالکلیہ ختم کردیا جائے۔ یہ نسخ کی ایک قسم اور صورت ہے۔ارشاد باری تعالی ہے: ﴿سَنُقرِئُكَ فَلا تَنسىٰ ٭إِلّا ما شاءَ اللَّهُ﴾ سورۃ الاعلی 6، 7، ’’ ہم آپ کو پڑھائیں گے ، پھر آپ بھولیں گے نہیں، مگر جو اللہ چاہے۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا:﴿ ما نَنسَخ مِن ءايَةٍ أَو نُنسِها نَأتِ بِخَيرٍ مِنها أَو مِثلِها﴾ سورۃ البقرۃ:106) ’’ جب کوئی آیت ہم منسوخ کریں یا بھلوا دیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آئیں گے۔‘‘ حدیث میں جس نسیان کا ذکر ہے وہ پہلی صورت ہے جو کوئی عیب نہیں۔( بذل المجہود)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه هو والبخاري في صحيحيهما ) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد عن هشام بن عروة عن عروة عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وقد أخرجه كما يأتي. وحماد: هو ابن سلمة. والحديث أخرجه البيهقي (3/12) من طريق سليمان بن حرب: ثنا حماد بن سلمة... به. وأخرجه البخاري (3/304- 315) ، ومسلم (2/190) ، من طريق أبي أسامة عن هشام... به نحوه. ثم أخرجه البخاري (12/52) ، ومسلم، وابن نصر (53) ، وأحمد (6/62) ، من طرق أخرى عن هشام... به.