تشریح:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم شیخ البانی ؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ لیکن ہمارے محقق ؒ فرماتے ہیں۔ کہ اس میں ایک راوی مجہول ہے۔ جسے امام ابو دائود نے عن رجل کہا ہے۔ اس لئے یہ روایت ضعیف ہے۔ جبکہ یہی دعا صحیح مسلم میں بھی ہے۔ لیکن وہاں اسے سجدہ نماز میں پڑھنے کا ذکر ہے۔ نہ کہ سجدہ قرآن میں (دیکھئے صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 771) نیز امام نسائی ؒ بھی اس دعا کو اپنی سنن میں لائے ہیں۔ لیکن انہوں نے بھی اسے سجدے کی دُعائوں میں مختلف الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ (دیکھئے سنن نسائی۔ الدعا فی السجود) البتہ امام دائود ؒ امام ترمذیؒ امام ابن خزیمہ ؒ اور امام ابن ماجہ ؒ نے اسے سجدہ تلاوت کے باب میں ذکر کیا ہے۔ ابودائود کی روایت کی سند ضعیف ہے۔ کیونکہ اس میں ایک راوی ہے۔ جسے امام ابو دائود ؒ نے عن رجل کہا ہے۔ اسی علت کی بنا پر امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔ (دیکھئے صحیح ابن خزیمہ: 283/1، 284) سنن ترمذی کی روایت بھی ضعیف ہے۔ کیونکہ خالد الحذاء کا ابو العالیہ سے سماع ثابت نہیں۔ (دیکھئے سنن ترمذی الصلاۃ حدیث 580) اور سنن ابن ماجہ ؒ کی روایت صحیح تو ہے۔ لیکن وہ بھی مطلق سجدے کی دعا ہے۔ حدیث میں صراحت نہیں ہے۔ کہ اسے سجدہ تلاوت میں پڑھا جائے۔ لیکن امام ابن ماجہ ؒ نے اسے سجدہ تلاوت کی دعا کے باب میں درج کیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ روایت بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اور صحیح مسلم کی روایت مطلق سجدے والی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی مطلق سجدے کے بارے میں مروی ہے۔ (دیکھئے صحیح مسلم۔ صلاۃ المسافرین حدیث 771 اور سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات حدیث 1054) سجدہ تلاوت کی صحیح دعا جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اسے امام ترمذی ؒ امام نووی ؒ اور حافظ ابن حجر ؒ نے حسن کہا ہے۔ (فتوحات ربانیہ 276/2) امام ابن خزیمہ ؒ ابن حبان ؒ حاکمؒ ذہبی ؒ اور شیخ احمد شاکرؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور شیخ البانی ؒ نے بھی حسن کہا ہے۔ یہ دعا ابتداء میں سجدہ تلاوت کے احکام ومسائل میں درج ہے۔ ان دلائل کی روشنی میں دوسری دعا پڑھنا ہی بہتر ہے۔ ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح، وصححه الترمذي والحاكم والذهبي .إسناده: حدثنا مسدد: ثنا إسماعيل. ثنا خالد الحَذاء عن رجل عن أبي العالية عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال البخاري؛ غير الرجل الذي لم يُسَم، فهو مجهول. غير أن ذكره في السند شاذ؛ تفرد به إسماعيل- وهو ابن عُلَيةَ- دون سائر أصحاب الحذاء كما يأتي. والحديث أخرجه البيهقي (2/325) من طريق المصنف. وابن أبي شيبة في المصنف (2/25) : حدثنا ابن عُلَيةَ... به. وأخرجه أحمد (6/30) ، وابن أبي شيبة (2/20) : ثنا هًشَيْم: ثنا خالد عن أبي العالية... به؛ لم يذكر الرجل في إسنادد . وتابعه عبد الوهاب الثقفي: حدننا حالا- الحذاء... به. أخرجه النسائي (1/169) ، والترمذي (1/114) ، وقال: حديث حسن صحيح . والحاكم (1/220) ، وقال: صحيح على شرط الشيخين ، ووافقه الذهبي؛ وهو كما قالا. وزاد الحاكم: فتبارك الله أحسن الخالقين . وهي زيادة شاذة عندي؛ لتفرد الحاكم بها في هذه الطريق دون الأخرين، ولعدم ورودها في شيء من الطرق الأخرى عن الحذاء، وإنما وردت في سجود الصلاة، كما تقدم في حديث علي (738) . وتابعه أيضا وً هَيْبً بن خالد عن الحذاء... به: أخرجه الحاكم. فهؤلاء ثلاثة من الثقات- هشيم، وعبد الوهاب الثقفي، ووهيب بن خالد- اتفقوا على أنه ليس في السند: (عن رجل) كما قال ابن عُلَيةَ؛ فروايتهم أرجح. والله أعلم. وله شاهد مرسل عن قيس بن سَكَن وشيخ آخر: عند ابن أبي شيبة.