تشریح:
رسول اللہ ﷺ فداہ أمي و أبي۔ کے شب وروز اللہ کی اطاعت میں گُزرتے تھے۔ اور ان میں کوئی لمحہ غفلت کا نہ ہوتا تھا۔ نیز آپ ﷺ دل مبارک ان عوارض سے پاک صاف اور بالا تر تھا۔ جو عام انسانوں کو لاحق ہوتے ہیں۔ اور اس کے باوجود آپﷺکا یہ فرمانا کہ میرے دل پر پردہ سا آجاتا ہے۔ اس کی تفصیل ہمارے لئے مشکل ہے۔ اس لئے امام لغت اصمعی نے کہا ہے کہ اگر غیر نبی کے دل کی بات ہوتی۔ تو میں اس پر بات کرتا۔ علامہ سندھی بھی تفویض کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ بطورافہام تفہیم کے بات اس قدر ہے۔ کہ آپ کی حالت اس طرح کی ہوجاتی تھی۔ کہ آپ اس پر استغفار فرماتے۔ (عون المعبود) جب رسول اللہ ﷺ رسول ہوتے ہوئے بھی استغفار فرماتے تھے تو عام انسانوں کی حالت کیا ہونی چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه مسلم في صحيحه . إسناده: حدثنا سليمان بن حرب ومسدد قالا: ثنا حماد عن ثابت عن أبي بُردة عن الأغر المزني- قال مسدد في حديثه: وكانت له صحبة-.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ فإن حماداً هنا: هو ابن زيد؛ فإنه الذي يروي عنه مسدد. وأما سليمان بن حرب؛ فروى عنه وعن حماد بن سلمة أيضا، وكل من الحمادين يروي عن ثابت. وقد رواه عنه ابن سلمة أيضأ كما يأتي. والحديث أخرجه مسلم (8/72) ، وأحمد (4/211 و 260) من طرق أخرى عن حماد بن زيد... به. وقال أحمد: ثنا حماد- يعني: ابن سلمة- قال: أنا ثابت... به.