تشریح:
(1) [فتنة النار] سےمراد ایسے عمل ہیں جو دخول جہنم کا باعث بنیں۔ یا جہنہم کے داروغوں کے وہ سوال مراد ہیں جو وہ بطور ز جرو تو بیخ کریں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿كُلَّما أُلقِىَ فيها فَوجٌ سَأَلَهُم خَزَنَتُها أَلَم يَأتِكُم نَذيرٌ ﴾ (الملك:8) ’’جب کبھی اس میں کوئی گروه ڈالا جائے گا اس سے جہنم کے داروغے پوچھیں گے: کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے واﻻ کوئی نہیں آیا تھا؟‘‘ اور ’’عذاب النار‘ ‘یہ کہ انسان جہنمی بن کر عذاب پائے ۔واللہ اعلم۔
(2) ’’مالدار کا شر‘‘ یہ ہے کہ انسان مالدار ہو کر فخر و عصیان اور ظلم کامرتکب ہونے لگے یا حرام کمائے اور حرام میں خرچ کرنے لگے۔
(3) اور ’’فقیری کا شر‘‘ یہ ہے انسان اغنیاء پر حسد کرنے لگے یا اللہ کی تقسیم پر راضی نہ رہے۔ یا حق کے بغیر ان کے مال میں طمع کرنے لگے‘ یا ان کے سامنے اپنی عزت کو داؤ پر لگا دے یا اسلام ہی سے روگردان ہو جائے۔ وغیرہ۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه الترمذي . إسناده: حدثنا إبراهيم بن موسى الرازي: أخبرنا عيسى: ثنا هشام عن أبيه عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين ، وقد أخرجاه كما يأتي. وعيسى: هو ابن يونس السَّبِيعي. والحديث أخرجه البخاري (11/147- 148 و 152) ، ومسلم (6/75) ، والترمذي (3489) - وصححه-، والنسائي (2/315- 316 و 316) ، وابن ماجه (2/432) ، وأحمد (6/57 و 207) من طرق عن هشام بن عروة... به أتم منه. واستدركه الحاكم (1/541) ! فوهم!