قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الزَّكَاةِ (بَابُ مَنْ يُعْطِي مِنْ الصَّدَقَةِ وَحَدُّ الْغِنَى)

حکم : صحیح 

1629. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ حَدَّثَنَا مِسْكِينٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجِرِ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي كَبْشَةَ السَّلُولِيِّ حَدَّثَنَا سَهْلُ ابْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ قَالَ قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنٍ وَالْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ فَسَأَلَاهُ فَأَمَرَ لَهُمَا بِمَا سَأَلَا وَأَمَرَ مُعَاوِيَةَ فَكَتَبَ لَهُمَا بِمَا سَأَلَا فَأَمَّا الْأَقْرَعُ فَأَخَذَ كِتَابَهُ فَلَفَّهُ فِي عِمَامَتِهِ وَانْطَلَقَ وَأَمَّا عُيَيْنَةُ فَأَخَذَ كِتَابَهُ وَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانَهُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَتُرَانِي حَامِلًا إِلَى قَوْمِي كِتَابًا لَا أَدْرِي مَا فِيهِ كَصَحِيفَةِ الْمُتَلَمِّسِ فَأَخْبَرَ مُعَاوِيَةُ بِقَوْلِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَأَلَ وَعِنْدَهُ مَا يُغْنِيهِ فَإِنَّمَا يَسْتَكْثِرُ مِنْ النَّارِ وَقَالَ النُّفَيْلِيُّ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ مِنْ جَمْرِ جَهَنَّمَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا يُغْنِيهِ وَقَالَ النُّفَيْلِيُّ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ وَمَا الْغِنَى الَّذِي لَا تَنْبَغِي مَعَهُ الْمَسْأَلَةُ قَالَ قَدْرُ مَا يُغَدِّيهِ وَيُعَشِّيهِ وَقَالَ النُّفَيْلِيُّ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ أَنْ يَكُونَ لَهُ شِبْعُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ أَوْ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ وَكَانَ حَدَّثَنَا بِهِ مُخْتَصَرًا عَلَى هَذِهِ الْأَلْفَاظِ الَّتِي ذَكَرْتُ

مترجم:

1629.

سیدنا سہل ابن حنظلیہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ ﷺ سے سوال کیا۔ تو جو کچھ انہوں نے مانگا، آپ نے انہیں دے دینے کا حکم دیا اور سیدنا معاویہ ؓ سے فرمایا کہ انہیں اس کی ایک تحریر دے دو، تو سیدنا معاویہ ؓ نے ان دونوں کو، جو انہوں نے مانگا، لکھ دیا۔ چنانچہ اقرع نے وہ خط لیا، اپنی پگڑی میں لپیٹا اور چل دیا۔ مگر عیینہ وہ خط لے کر نبی کریم ﷺ کے پاس آ گیا جہاں آپ تشریف فرما تھے اور کہنے لگا اے محمد! آپ کا کیا خیال ہے کہ «صحيفة المتلمس» کی طرح میں یہ خط لے کر اپنی قوم کے پاس چلا جاؤں، نہ معلوم اس میں کیا ہے؟ تو سیدنا معاویہ ؓ نے اس کی تلمیح کی وضاحت رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کی۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (جو شخص مانگتا ہے، حالانکہ بقدر کفایت اس کے پاس موجود ہو تو وہ اپنے لیے آگ ہی کا اضافہ کرتا ہے۔) نفیلی نے دوسری جگہ کہا: (جہنم کے انگارے زیادہ کرتا ہے۔) لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کیا (مقدار) ہے جو انسان کو کافی ہوتی ہے (اور سوال سے غنی بنا دیتی ہے؟) دوسری جگہ نفیلی کے الفاظ اس طرح تھے۔ غنا کی وہ کیا حد ہے جس کے ہوتے ہوئے سوال کرنا لائق نہیں؟ آپ نے فرمایا: ”جس کے پاس صبح و شام کا کھانا موجود ہو۔“ نفیلی کے الفاظ دوسری جگہ یہ تھے۔ ”جس کے پاس دن اور رات کے لیے پیٹ بھر کھانا موجود ہو۔“ (امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں) نفیلی نے ہمیں یہ روایت مختصر طور پر اسی طرح بیان کی تھی جو ذکر کی گئی ہے۔