تشریح:
1۔ اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ زخم سے خون بہے تو اس سے وضونہیں ٹوٹتا اور نہ نماز فاسد ہوتی ہے۔ جو لوگ خون بہنے سے وضو کے ٹوٹ جانے کے قائل ہیں‘ وہ ایک تو حیض اور استحاضے کے خون سے اور نکسیر کی بابت روایات سے استدلال کرتے ہیں جن میں نکسیر پھوٹنے کو بھی ناقض وضو بتلایا گیا ہے۔ حالانکہ حیض یا استحاضے کے خون کی حثییت عام زخم سے بہنے والے خون سے یکسر مختلف ہے۔ اس لیے کہ ان کےتو احکام ہی مختلف ہیں۔ علاوہ ازیں وہ خون [سبیلین] ’’شرم گاہوں‘‘ سے نکلتا ہے جو بالاتفاق ناقض وضوہے۔ جب کہ زخموں سے نکلنے والے خون کی یہ حثییت نہیں۔ اس لیے صحابہ کرامﷺجنگوں میں زخمی ہوتے رہے اور اسی حالت میں وہ نمازیں بھی پڑھتےرہے، لیکن رسول اللہ ﷺنے زخمی صحابہ کو نماز پڑھنے سے منع نہیں فرمایا۔ جواس بات کی دلیل ہے کہ عام زخموں سے نکلنے خون ناقض وضونہیں ہے۔ علاوہ ازیں نکسیرسے وضو کرنے والی روایات سے بھی استدلال کیا جاتا ہے جوکہ سب کی سب ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔ (تفصیل کےلیےدیکھیں :عون المعبود)
2۔ غزوہ ذات الرقاع امام بخاری کی ترتیب کے مطابق خیبر کے بعد ہوا تھا۔
3۔اس کی وجہ تسمیہ ایک تو یہ ہے کہ اس موقع پر مجاہدین نے اپنے پاؤں زخمی ہونے کے باعث پٹیاں باندھی تھیں۔ علاوہ ازیں بھی کچھ وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔
4۔ جہاد میں بالخصوص اور دیگر مواقع پر بالعموم پہریداری کا انتظام توکل کےخلاف نہیں بلکہ مسنون اور حکمت جنگ کا ایک لازمی حصہ ہے۔
5۔ مجاہدین اسلام دوران جہادمیں بھی اپنےوقت کوقیمتی اعمال میں صرف کرتے تھےجیسے کہ اس انصاری نے پہریداری کے دوران نماز اور تلاوت قرآن شروع کر دی اوروہ سورت‘ جو یہ مجاہد پڑھ رہا تھا‘ سورہ کہف تھی۔
6۔ نمازاور قرآن سے محبت ہی صحابہ کرام کا امتیازوشرف تھا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وكذ ا قال النويي، وصححه ابن خريمة وابن حبان (1093) والحاكم، ووافقه الذهبي) . إسناده: حدثنا أبو توبة الربيع بن نافع فال: ثنا ابن المبارك عن محمد بن إسحاق قال: حدثني صدقة بن يسار عن عَقِيل بن جابر عن جابر. وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير عقيل بن جابر، فقال الذهبي في الميزان : فيه جهالة؛ ما روى عنه سوى صدقة بن يسار ! كذا قال! وقد قال الحافظ في التهذيب : وقد روى جابر البياضيُّ عن ثلاثة من ولد جابر عن جابر؛ فيحصل لنا راو آخر- وإن كان ضعيفا عن عقيل مع صدقة؛ لأن جابراً له ثلاثة أولاد رووا الحديث: هذا وعبد الرحمن ومحمد . وعقيل وثقه ابن حبان وغيره ممن صحح حديثه؛ كما يأتي. والحديث قال النووي في المجموع (2/55) : رواه أبو داود بإسناد حسن، واحتج به أبو داود . قلت: ومن طريقه: أخرجه البيهقي (1/140) . وأخرجه الإمام أحمد (3/343- 344) قال: ثنا إبراهيم بن إسحاق: ثنا ابن المبارك ... به أتم منه. ثم أخرجه أحمد (3/359) : ثنا يعقوب: ثنا أبي عن محمد بن إسحاق: حدثني صدقة بن يسار... به. وأخرجه الدارقطني (ص 82- 83) ، والحاكم (11/56- 157) ، وعنه البيهقي (9/150) من طريق يونس بن بكير عن ابن إسح ق... به. وقال الحاكم: هذا حديث صحيح الإسناد؛ فقد احتج مسلم بأحاديث محمد بن إسحاق. فأما عقيل بن جابر بن عبد الله الأنصاري؛ فإنه أحسن حالأ من أخويه محمد وعبد الرحمن ! ووافقة الذهبي! لكن ابن إسحاق لم يحتجَّ به مسلم، بل استشهد به في خمسة أحاديث، كما قال الذهبي نفسه في الميزان . والحديث ذكره البخاري في صحيحه تعليقاً (1/225) مختصراً؛ فقال الحافظ: وصله ابن إسحاق في المغازي قال: حدثني صدقة بن يسار عن عقيل بن جابر عن أبيه مطولاً. وأخرجه أحمد وأبو داود والدارقطني وصححه ابن خزيمة وابن حبان والحاكم؛ كلهمِ من طريق ابن إسحاق. وشيخه صدقة ثقة. وعقيل- بفتح العين- لا أعرف راويآ عنه غير صدقة ! قلت: قد عرف له الحافظ في التهذيب راويا ًآخر كما سبق، ثم قال: وأخرجه البيهقي في الدلائل من وجه آخر؛ وسمى الأنصاري المذكور: عَباد بن بشر، والمهاجري: عمار بن ياسر، والسورة: الكهف . قلت: ولعل هذا الوجه هو من طريق أولاد جابر الثلاثة الذين ذكرهم الحاقظ في كلامه السابق! وعليه؛ فالحديث يقوى به. والله أعلم. ثم قلت: فيه عنده (3/378) : الواقدي؛ وهو متروك! فالعمدة على ما تقدم. والله أعلم.