تشریح:
1: اگر عورت شرع واخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے کہیں نکاح کا عندیہ دے تو اس کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ شرع واخلاق سے باہر نکلنا تو کسی بھی اسلامی معاشرے میں قبول نہیں ہو سکتا۔ نیز یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں حالانکہ آیت کریمہ کے ظاہر الفاظ میں نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف ذکر ہوئی ہے۔
2: ہمارے معاشرے میں عورتیں بالعموم بعض اسباب کے تحت اپنی اس ضرورت (نکاح ثانی) کا اظہار نہیں کرتی ہیں اس لئے اولیاء کے ذمے ہے کہ ان کی اس فطری اور اخلاقی ضرورت کا احساس کریں، اس طرح عورت کو مادی ومعاشرتی تحفظ ملتا ہے اور ایک شرعی فریضہ ادا ہوتا ہے۔ تعجب ہے کہ اس نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بہت سے مسلمان نکاح ثانی کو بہت برا سمجھتے ہیں۔ چاہیے کہ اس سنت کا احیاء ہو جیسے کہ سید احمد شہید اور اسمعیل شہید رضی اللہ نے کیا تھا۔
3 : جب آدمی جذبات میں آکر کوئی غلط قسم اٹھالے تو کفارہ دے اور صحیح عمل اختیار کرے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . وأخرجه البخاري من طريق المؤلف الحسنة، ومن طريق أخرى صحيحة) . إسناده: حدثنا محمد بن المثنى: حدثني أبو عامر: ثنا عَباد بن راشد عن الحسن: حدثني معقل بن يسار.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهمِ ثقات رجال الشيخين؛ غير عَبَّاد بن راشد، فهو من رجال البخاري، لكن مقروناً بغيره؛ وذلك لأن فيه كلاماً من جهة حفظه؛ وقد أخرجه من طريقه وغيره كما يأتي. وأبو عامر: هو عبد الملك بن عمرو العَقَدِيُ. والحديث أخرجه البيهقي من طريق المصنف. ثم أخرجه هو، والبخاري (8/154) وغيرهما من طرقٍ أخرى عن أبي عامر العقدي... به. وتابعه يونس وقتاده عن الحسن... به. أخرجه البخاري (9/152 و 398) وغيره، وهو مخرج في إرواء الغليل (1843) .