تشریح:
والد کو بالخصوص حق حاصل ہے کی کسی مصلحت کے پیش نظر چھوٹی عمر کی بچی کا نکاح کردے، مگر صحبت ومباشرت کے لئے بلوغت کا شرط ہونا عقل، نقل اور اخلاق کا لازمی تقاضا ہے اور چھوٹی عمرکا ازواج کسی طرح بھی منافی عقل وشرع نہیں ہے۔ اگر کسی کے مزاج پر اپنا ذوق اور علاقائی خاندانی رواج غالب ہو تو، کیا کہا جا سکتا ہے! ان چیزوں کو اصول شریعت نہیں بنایا جا سکتا اور پھر رسول ﷺاور ابو بکر صدیق رضی اللہ کے تعلقات شروع دن سے صدیقیت پر مبنی تھے، نبیﷺ ان کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکے تو ان کو اپنے اور قریب کر لیا۔ مزید برآں یہ نکاح بطور خاص وحی منام کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔ جیسا کہ حدث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ علمائے طب لکھتے ہیں کہ گرم علاقوں میں لڑکیاں نو سال کی عمر میں حائضہ ہو جاتی ہیں اور معتدل مناطق میں بارہ سال میں اور ٹھنڈے علاقوں میں سولہ سال میں بالغ ہوتی ہیں۔ دارقطنی اور بیہقی میں عباد بن عباد سے روایت ہے کہ ہماری ایک عورت اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی تھی۔ امام بخاری ؒ نے اسی طرح ایک واقعہ اکیس سال عمر کا بیان کیا ہے۔ (ازحاشیہ بذل المجھود)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه، وابن الجارود) . إسناده: حدثنا سليمان بن حرب وأبو كامل قالا: ثنا حماد بن زيد عن هشام ابن عروة عن أبيه عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين من طريق سليمان، وعلى شرط مسلم من طريق أبي كامل- واسمه فُضَيْلُ بن حسين الجَحْدَرِي-. وقد أخرجاه من طرق أخرى عن هشام بن عروة... به. وله طريقان آخران عن عائشة رضي الله عنها. وقد خرجتها جميعاً في الإرواء (1831) .