تشریح:
اگر تادیب کی ضرورت ہو، زبانی اور بے رخی سے بیوی اپنے معاملے کو سلجھاتی نہ ہوتو مارنے کی رخصت ہے جیسے کہ سورہ نساء آیت 34 میں آیا ہے۔ یہ روایت بعض ائمہ کے نزدیک ضعیف ہے۔ صحیح ہونے کی صورت میں میں اس کا مطلب وہ مارہے، جس کی اجازت شریعت نے دی ہے۔ یعنی ہلکی سی مار، جس کا مقصد بیوی کی اصلاح اور اسے متنبہ کرنا ہو۔ اگر خاوند ظلم کرے گا، حدسے تجاوز کرے گا یا اسے بلاوجہ مارے پیٹے گا تووہ ظالم ہوگا جس کا اسے حساب دینا پڑے گا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؟ المُسْلي هذا قال الذهبي: لا يعرف ) . إسناده: حدثنا زهيرُ بنُ حربِ: ثنا عبد الرحمن بن مهْدي: ثنا أبو عوانة عن داود بن عبد الله الأودي عن عبد الرحمن المُسلي.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات؛ غير عبد الرحمن المسلي، وهو مجهول؛ تفرد عنه داود هذا، ولم يوثقه أحد، لكن صحح له الحاكم حديثاً أشار إليه الحافظ في التهذيب ولم أعرفه، والحاكم معروف بتساهله في التصحيح، وقد مضى له أمثلة عديدة. والحديث قد خُرج في الإرواء (2034) ، ونبهت فيه على وهمين غريبين للشيخ أحمد شاكر رحمه الله.