تشریح:
اللہ تعالیٰ کو بنی آدم کے کسی عمل کی کوئی حاجت نہیں۔ اس کی اپنی احتیاج کے تحت ہی اسے شرعی امور کا پابند کیا گیا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان اپنی تمام تر گفتگو اور تمام کاموں میں اپنے آپ کو تمام محرکات سے دور رکھے۔ غیبت نہ کرے، جھوٹ نہ بولے، چغلی نہ کھائے، حرام چیزوں کو فروخت نہ کرے، جب پورا مہینہ آدمی ان چیزوں سے دور رہے تو امید ہے کہ اس کا نفس سال کے بقیہ مہینوں میں بھی ان چیزوں سے اللہ کے فضل و کرم سے محفوظ رہے گا۔ لیکن انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ بہت سارے روزہ دار، رمضان اور غیر رمضان میں کوئی فرق نہیں کرتے، وہی جھوٹ، بے ہودہ گفتگو، دھوکہ وغیرہ اپنی عادت کے مطابق جارہ رہتا ہے۔ ان کے اوپر رمضان المبارک کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بلاشبہ حدیث میں مذکورہ اعمال روزے کو نہیں توڑتے مگر اس کے اجروثواب میں کمی ضرور آجاتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب کثرت سے ان اعمال کی پروا نہ کی جائے تو روزے کا اجر ہی ضائع ہو جائے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه البخاري بإسناد المصنف ومتنه. وصححه الترمذي) . إسناده: حدثنا أحمد بن يونس: ثنا ابن أبي ذئب عن المَقْبُرِي عن أبيه عن أبي هريرة. قال أحمد: فهمت إسناده من ابن أبي ذئب، وأفهمني رجل إلى جنبه؛ أراه ابنَ أخيه .
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. والحديث أخرجه البيهقي (4/270) من طريق المصنف. والبخاري (10/389) ... بإسناده ومتنه؛ إلا أنه اختصر جداً قول أحمد - وهو ابن عبد الله بن يونس- فقال: قال أحمد: أفهمني رجل إسناده! انظر فتح الباري . ثم أخرجه البخاري (4/93) ، والترمذي (707) ، وابن ماجه (1/517) ، وابن خزيمة في صحيحه (1995) ، وأحمد (2/452 و 505) من طرق أخرى عن ابن أبي ذئب... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . وليس عنده زيادة: والجهل . وهو رواية لابن خزيمة، ورواية البخاري هذه. وأخرجه ابن المبارك في الزهد (1307) ... بالزيادة. (تنبيه) : سقطت هذه الزيادة من الأصل، فاستدركتها من رواية البيهقي عن المصنف، ومن رواية البخاري بإسناده.