تشریح:
(1) روزہ رکھ کر مسواک کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ مسواک خواہ تازہ ہو یا خشک، ہر طرح سے جائز ہے۔ اور ظاہر ہے کہ تازہ مسواک کی رطوبت کو تھوکنا لازمی ہو گا جب کہ اس کے ذائقے کا منہ میں باقی رہ جانا معاف ہے۔ جہاں تک ٹوتھ پیسٹ کا استعمال کا سوال ہے، تع بعض علماء اسے روزے کی حالت میں مکروہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن ایسا سمجھنا صحیح نہیں ہے، اس کا حکم بھی مسواک سے مختلف نہیں ہے۔ اگر برش کے استعمال کے دوران میں، مسواک کرتے ہوئے یا وضو کرتے ہوئے دانتوں سے معمولی مقدار میں خون نکل آئے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے (باب سوال الرطب واليابس للصائم) کا عنوان قائم کر کے مندرجہ بالا روایت کو تعلیقا بیان فرمایا ہے۔
(2) دوسری حدیث جس میں ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی طیب ہوتی ہے۔ (صحيح البخاري‘ الصوم‘ حديث :1894‘ و صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث :1151) تو اس کا مفہوم منہ کو گندہ رکھنا نہیں بلکہ اس میں روزے دار کا اللہ کے ہاں محبوب ہونا بیان ہوا ہے اور یہ کہ اس کے معدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے اس کے منہ میں جو نامناسب سی بو پیدا ہو جاتی ہے، وہ بھی اللہ کے ہاں پسندیدہ ہے۔ اور ہر حال اور کیفیت میں منہ کو صاف ستھرا رکھنا مطلوب ہے اور روزہ دار ہر حال میں اللہ کا محبوب ہے۔
(3) اس حدیث کی اسنادی بحث کے لیے دیکھئے: (إرواء الغلیل، حدیث: 68)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ عاصم هذا: قال ابن خزيمة: أنا بريء من عهدته . وقال البيهقي عقبه: ليس بالقوي . وقال الحافظ: ضعيف . وعلقه البخاري بصيغة التمريض) . إسناده: حدثنا محمد بن الصبّاح: ثنا شرِيْك. (ح) وثنا مسدد: ثنا يحيى عن سفيان عن عاصم بن عبيد الله.
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ لسوء حِفْظِ عاصم. لذلك اتفقوا على تضعيفه؛ حاشا العجلي، فإنه شذ فقال: لا بأس به . ولذلك جزم الحافظ بتضعيفه في التقريب ، وفي التلخيص أيضاً (1/ 68) ، ولكنه تناقض فقال في مكان اخر منه (1/62) : وإسناده حسن ! وهو من أوهامه الظاهرة، لا سيما وهو لم يعلق على تعليق البخاري إياه بصيغة التمريض: ويذكر عن عامر بن ربيعة... ؛ إلا بما يؤكده، وهو قوله:
قلت: وضعفه (يعني: عاصماً) ابنُ معين، والذهلي، والبخاري وغير واحد . والحديث أخرجه الترمذي وغيره، وهو مخرج في الإرواء (68) .