تشریح:
فوائد ومسائل:۔ سورہ توبہ میں یہ مضمون تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ) (التوبہ۔111) اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں تو مارتے ہیں۔ اور مارے بھی جاتے ہیں۔ یہ تورات انجیل اور قرآن میں بیان شدہ سچاوعدہ ہے۔ الغرض مسلمان کو اپنے تمام تر اعمال اور احوال میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر وثواب کا امید وار اور اس کے عقاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ یہی اصل ایمان اور اس کی چوٹی ہے۔
2۔ اللہ عزوجل کا تعجب کرنا اس طرح اس کی دیگر صفات کی کیفیت ہم جان سکتے ہیں۔ نہ بیان کر سکتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ (ۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ)(الشوریٰ۔11) اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ بنا بریں یہ صفات الہیٰ ایسی ہیں۔ جیسے اس کی شان کے لائق ہیں۔ ہمیں ان پرایمان رکھنا ہے جیس وہ بیان ہوئیں ہیں۔ ان کی کنہ اور حقیقت جاننے کے چکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہ کوئی جان ہی نہیں سکتا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن، وصححه ابن حبان والحاكم والذهبي) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: حدثنا حماد: أخبرنا عطاء بن السائب عن مُرةَ الهَمْدَانِي عن عبد الله بن مسعود.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الصحيح ؛ إلا أن ابن السائب كان اختلط، وحماد- وهو ابن سلمة- وإن كان سمع منه قبل الاختلاط؛ فقد سمع منه بعد الاختلاط أيضاً، كما حققه الحافظ في التهذيب . فمن صححه من القُدَامى والمعاصرين؛ فما أصاب! نعم، الحديث حسن أو صحيح؛ فإن له شاهداً بنحوه من حديث أبي الدرداء، حَسنَ إسناده المنذري، وهو في كتابي صحيح الترغيب والترهيب (1384) ، وقد طبع المجلد الأول منه، يسر الله تمام طبعه (وقد طبع بحمد الله بقسميه الصحيح و الضعيف في خمسة مجلدات. (الناشر) . (7/291)) . الحديث أخرجه الحاكم (2/112) من طريق آخر عن موسى بن إسماعيل... به ، وقال: صحيح الإسناد ! ووافقه الذهبي! وأخرجه ابن حبان (643) ، وأحمد (1/416) ، والطبراني في الكبير (3/75/2 و 80/1) من طرق أخرى عن حماد... به أتم منه. ورواه البيهقي (9/164) ؛ وأشار إلى حديث أبي الدرداء.