1۔ رسول اللہ ﷺ کا غیب کی خبریں دینا وحی کی بنا پر ہوتا تھا۔
2۔ مجاہد کو تلوار کا دھنی ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر تدابیر سے بھی کام لینا چاہیے۔ جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دھمکی سے کام نکالا۔
3۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی امانت قابل قدر ہے کہ انہوں نے اپنے طور پر خط پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔
4۔ کافر کا کوئی اکرام و احترام نہیں ہوتا، بالخصوص جب وہ مسلمانوں کے خلاف کام کرتا ہو۔
5۔ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین تمام تر رفعت شان کے باوجود بشری خطائوں سے مبرا نہ تھے اور ان سے ان کے عادل ہونے پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔ جیسے کہ حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
6۔ جب کوئی شخص کسی ناجائز کام کا مرتکب ہوا ہو وہ اس کے جواز میں اپنے فہم (تاویل) کا سہارا لے تو اس کا عذر ایک حد تک قبول کیا جائے گا۔ بشرط یہ کہ اس کے فہم (تاویل) کی گنجائش نکلتی ہو۔
7۔ کوئی مسلمان ہوتے ہوئے اپنے مسلمانوں کے راز افشاں کرے۔ اور ان کی جاسوسی کرے۔ تو یہ حرام کام ہے۔ اور انتہائی کبیرہ گناہ مگر اس کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ لیکن تعزیر ضرور ہوگی۔ امام شافعی فرماتے ہیں۔ کہ اگر کوئی مسلمان باوقار ہو اور مسلمانوں کو ضرر پہنچانے کی تہمت سے مہتم نہ ہو تو اس کو معاف بھی کیا جاسکتا ہے۔
8۔ کسی واضح عمل کی بنا پر اگر کوئی شخص کسی کو کفر یانفاق کی طرف منسوب کردے تو اس پرکوئی سزا نہیں۔ جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا۔
9۔ اہل بدر کو دیگر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے مقابلے میں ایک ممتاز مرتبہ حاصل تھا۔ حضرت حاطبرضی اللہ تعالیٰ عنہ انہی میں سے تھے۔ اور نفاق کی تہمت سے بری تھے۔
10۔ جو جی چاہے کرو۔ کہ یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ شرعی پابندیوں سے آذاد قرار دیئے گئے۔ بلکہ یہ ان کی مدح ثناء تھی۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرفسے ضمانت تھی۔ کہ یہ لوگ اللہ کی خاص حفاظت میں ہیں۔ ان میں سے کوئی ایسا کام مصادر نہ ہوگا۔ جوشریعت کے صریح منافی ہو۔ واللہ اعلم۔