تشریح:
1۔ یہ غزوہ تبوک میں حضرت کعب بن ماک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیر حاضری پر ان کے بائکاٹ سے متعلق واقعہ ہے۔ جو فتح مکہ کے بعد سن 9 ہجری میں پیش آیا تھا۔ اور یہی وہ غزوہ ہے۔ جو اس دور کے تمام مسلمانوں پر بالمعوم فرض عین ہوا تھا۔ مگر مخلص مسلمانوں میں سے تین افراد بغیر کسی معقول عذر کے پیچھے رہ گئے یعنی کعب بن مالک سربراہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لائے۔ تو انہوں نے بصراحت اقرار کیا۔ کہ ہمارے پیچھے رہ جانے میں کوئی شرعی عذر نہ تھا۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان سے مقاطعہ کرلیں۔ چالیس دن کے بعد حکم آیا کہ یہ اپنی عورتوں سے بھی الگ رہیں۔ پچاس دن پورے ہونے پر توبہ قبول کی گئی۔ او ر یہ آیت نازل ہوئی۔ (وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّـهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ) (التوبة۔118) اور اللہ نے ان تین آدمیوں کی توبہ قبول فرما لی۔ جن کا معاملہ موخر کیا گیا تھا۔ یہا ں تک کہ جب زمین باوجود اپنی کشادگی کے ان پر تنگ ہوگئی۔ اورخود ان کی جان بھی ان پر تنگ ہوگئی۔ اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ کے سوائے ان کےلئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ پھر اللہ نے ان پر رجوع فرمایا تاکہ وہ توبہ کرلیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا بہت مہربان ہے۔
2۔ جو شخص خوشخبری پہنچائے اسے ہدیہ دینا مستحب ہے۔