تشریح:
1۔ میت کا قرضہ اولین فرصت میں ادا کرنا چاہیے۔ مگر حسب احوال مہلت لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اور مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حتی الامکان نرمی کا معاملہ کرے۔ اور اس قسم کے معاملات میں سفارش کرنا بھی مستحب ہے۔
2۔ صحیح بخاری میں اس حدیث کا مضمون کچھ اس طرح ہے۔ حضرت جابر بن عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ میرے والد احد میں شہید ہوگئے۔ اور چھ بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بہت سا قرض بھی چھوڑ گئے۔ جب کھجوریں کاٹنے کا موسم آیا۔ تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں۔ آپ تشریف لائیں تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں۔ (اور مطالبے میں سختی نہ کریں) آپ نے فرمایا: جاؤ اور اپنا تمام پھل ایک جانب ڈھیر کرو۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور پھر آپ کو بلا لایا، جب ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو مجھے غضبناک تیز نظروں سے دیکھنے لگے، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تیور دیکھے تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے اور پھر اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کی بلائو، چنانچہ میں ان کےلئے کھجوریں بھرتا اور ناپتا رہا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت (قرض) ادا کردی۔ اور اللہ کی قسم میں اس بات پرراضی تھا۔ کہ اللہ میرے باپ کی امانت (قرض) پوری کرا دے۔ خواہ میں اپنی بہنوں کےلئے ایک دانہ بھی نہ لے جائوں۔ چنانچہ اللہ کی قسم وہ سب ڈھیر اسی طرح محفوظ رہے۔ اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ڈھیر جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ ا س میں سے ایک دانہ بھی کم نہ ہوا تھا۔ (صحیح البخاري، الوصایا، حدیث: 2781) اس حدیث میں بیان ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین حقوق العباد کے معاملے میں انتہائی حساس تھے۔ اور پھر اللہ عزوجل بھی اپنے بندوں کی عزتوں کو کس پراسرارانداز میں محفوظ فرماتا ہے۔ اور ان کے رزق میں واضح برکت ڈال دیتا ہے۔ بشرط یہ کہ ایمان وعمل میں اخلاص ہو اور ایک اللہ ہی پر توکل ہو۔ جعلنا اللہ منھم، آمین۔
3۔ وسق کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔ کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا اور ایک صاع تقریبا ڈھائی کلو کا ہوتا ہے۔ اس حساب سے ایک وسق تقریباً 3 من اور 30 کلو ہو اور 30 وسق کا وزن تقریبا ً 112 من اور 20 کلو ہوا۔ واللہ اعلم