تشریح:
1۔ ان احادیث میں مال فے اور خمس کو صدقہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی جو اللہ عزوجل نے اپنے نبی کریم ﷺ کو دیا تھا۔ نہ کہ وہ معروف صدقہ جو لوگ اپنے مالوں میں سے نکالا کرتے ہیں۔2۔ فهما علی ذلك إلی اليوم، چنانچہ وہ آج تک اسی طرح ہیں کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت تک تو اس پرعمل ہوتا رہا۔ مگر بعد کے زمانوں میں اس کی تقسیم ہوگئی۔ اور اس کی وہ حیثیت برقرار نہ رہ سکی۔ جو نبی کریم ﷺ کے زمانے میں تھی۔