تشریح:
توضیح۔ اس کی وضاحت میں فقہائے کرام یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی یوں کہے کہ اس چیز کی نقد قیمت سو روپیہ اور ادھار دو سوروپیہ ہے۔ اور وہ دونوں معاملہ کرلیں۔ لیکن نقد یا ادھار میں سے کوئی سی صورت وضاحت سے متعین نہ کریں تو یہ ایک سودے میں دو سودے ہوں گے۔ اس میں چونکہ ایک قیمت متعین نہیں ہوتی۔ اس لئے بیع فاسد ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی کہے میں تمھیں یہ چیز سوروپے میں فروخت کرتا ہوں۔ بشرط یہ کہ تم اپنی فلاں چیز پچاس روپے میں مجھے فروخت کرو۔ یہ بھی ایک سودے میں دو سودے ہیں۔ اور غرض دو سرے کی چیز سستی لینا ہے۔ اس میں سود کا عنصر شامل ہے۔ یہ صورت بھی مذکورہ بالا باب میں بیان کردہ صورت کی طرح سود کا ایک حیلے کے طور پر اختیار کرنا ہے۔ علامہ ابن اثیر ؒ نے ایک سودے میں دو سودوں کی ایک صورت یہ بھی لکھی ہے۔ کہ کسی ایک نے دوسرے کو پانچ سو روپے دیے ہوں۔ کہ ایک مہینے میں مجھے گندم کی بوری دے دینا مگر وقت آنے پر وہ گندم نہ دے سکے تو دوسرا پہلے سے کہہ سکے کہ تم مجھے وہ بوری فروخت کردو۔ میں ایک مہینہ بعد تمھیں دو بوریاں دوں گا۔ یہ تو صریح سود ہے۔ نیز ایک معدوم شے کی بیع بھی ہے۔جو جائز نہیں۔ خیال رہے کہ پہلی صورت میں اگر دونوں فریق کسی ایک قیمت پر متفق ہوکرعلیحدہ ہوں۔ تو کوئی حرج نہیں۔ یہ بیع بالکل صحیح ہوگی۔ علماء فقہاء کی اکثریت اس کے جواز کی قائل ہے۔ بنا بریں ان فقہاء کے نزدیک نقد ادھار کی قیمت میں فرق جائز ہے۔ اور اس طرح قسطوں پر کاروبار بھی جائز ہے۔ تاہم علماء کا ایک گروہ اس کے جواز کا قائل نہیں ہے۔ ان کے نزدیک نقد وادھار کی قیمت کا فرق حدیث کے الفاظ (فله أوكسها أو الربا) کی رو سے ربا کا واضح احتمال اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس لئے قسطوں کا کاروبار ربا (سود) کے شائبے سے پاک نہیں ہے۔ جب ایسے ہے تو اس کاروبار سے بچنا بہرحال بہتر ہے۔ اسی طرح قسطوں پر اشیاء کا خریدنا بھی خلاف اولیٰ ہے۔ واللہ اعلم۔