تشریح:
فائدہ۔ اس حدیث کا کتاب الرہن سے بظاہر کوئی ربط معلوم نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے کہ اہل ایمان میں فی اللہ محبت کی بنا پر بخوشی ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ اور انھیں ایک دوسرے پر کامل اعتماد ہوتا ہے۔ اور رہن دینا لینا کوئی واجب نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ (فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ) (البقرة:283) اور اگر تم میں سے کوئی دوسرے پر اعتبار کرے تو جس شخص پراعتبار کیا گیا ہو اسے چاہیے کہ دوسرے کی امانت واپس ادا کردے۔ یعنی رہن (گروی) رکھنا۔ ایک دوسرے پر عدم اعتماد اورامانت ودیانت کے فقدان کی دلیل ہے۔ جہاں اس کے برعکس صورت حال ہوگی۔ یعنی ایک دوسرے کی امانت ودیانت پر اعتماد ہوگا۔ وہاں رہن کے بغیر بھی قرض لینے دینے میں نقصان کا خظرہ نہیں ہوگا۔ اور ایسا ہی معاشرہ اسلام کا مثالی معاشرہ ہے۔ اس حدیث میں اسی معاشرے کی طرف اشارہ ہے۔