قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْحُدُودِ (بَابُ رَجْمِ مَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ)

حکم : حسن 

4420. حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: ذَكَرْتُ لِعَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ قِصَّةَ مَاعِزِ ابْنِ مَالِكٍ... فَقَالَ لِي: حَدَّثَنِي حَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ذَلِكَ مِنْ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >فَهَلَّا تَرَكْتُمُوهُ<، مَنْ شِئْتُمْ مِنْ رِجَالِ أَسْلَمَ مِمَّنْ لَا أَتَّهِمُ، قَالَ: وَلَمْ أَعْرِفْ هَذَا الْحَدِيثَ، قَالَ: فَجِئْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، فَقُلْتُ: إِنَّ رِجَالًا مِنْ أَسْلَمَ يُحَدِّثُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُمْ حِينَ ذَكَرُوا لَهُ جَزَعَ مَاعِزٍ مِنَ الْحِجَارَةِ حِينَ أَصَابَتْهُ: >أَلَّا تَرَكْتُمُوهُفَهَلَّا تَرَكْتُمُوهُ، وَجِئْتُمُونِي بِهِ<، لِيَسْتَثْبِتَ رَسُولُ اللَّهِ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- مِنْهُ, فَأَمَّا لِتَرْكِ حَدٍّ فَلَا<، قَالَ: فَعَرَفْتُ وَجْهَ الْحَدِيثِ.

مترجم:

4420.

جناب حسن بن محمد بن علی بن ابوطالب نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان: ”تم نے اس کو چھوڑ کیوں نہ دیا۔“ مجھ کو قبیلہ اسلم کے کئی لوگوں نے بیان کیا جنہیں میں جھوٹ سے متہم نہیں سمجھتا۔ کہا کہ میرے لیے یہ حدیث واضح نہ تھی۔ چنانچہ میں سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کے پاس حاضر ہوا اور ان سے کہا کہ قبیلہ اسلم کے لوگ یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (ماعز کو رجم کرنے والے) لوگوں سے کہا، جب انہوں نے آپ ﷺ کو بتایا کہ ماعز کو جب پتھر لگے تو وہ ان کی چوٹ برداشت نہ کر سکا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے اس کو چھوڑ کیوں نہ دیا۔“ میں یہ حدیث سمجھ نہیں سکا ہوں۔ تو سیدنا جابر ؓ نے کہا: اے بھتیجے! میں اس حدیث کے متعلق سب لوگوں سے بڑھ کر جانتا ہوں۔ میں ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے اس کو رجم کیا تھا۔ جب ہم اس کو لے کر نکلے اور اسے پتھر مارے اور اسے پتھروں کی چوٹ پڑی تو وہ چیخ اٹھا: اے قوم! مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس لے چلو، میری قوم نے مجھے مروا ڈالا ہے، انہوں نے مجھے میری جان کے متعلق دھوکا دیا ہے، انہوں نے مجھ سے کہا: تھا کہ رسول اللہ ﷺ تجھے قتل نہیں کریں گے۔ مگر ہم اس سے پیچھے نہ ہٹے حتیٰ کہ اسے مار ڈالا۔ پھر جب ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور آپ ﷺ کو اس کی خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا اور اسے میرے پاس کیوں نہ لے آئے۔“ (غرض یہ تھی کہ) اللہ کے رسول اس کو ثابت قدم رہنے کا کہتے۔ (یعنی دنیا کا عذاب، آخرت کے مقابلے میں ہلکا اور آسان ہے)۔ لیکن یہ مفہوم ہو کہ آپ ﷺ نے حد چھوڑ دینے کی غرض سے یہ کہا ہو، ایسے نہیں ہے، چنانچہ تب میں (حسن بن محمد) حدیث کا مطلب سمجھ سکا۔