تشریح:
1۔ قرآنی آیات کے محکم اور متشابہ ہونے کے کئی معانی ہیں۔ مثلاًوہ آیات جو دوسری ایات کے لیے ناسخ ہیں۔ یا جن میں حلال وحرام کا بیان آیا ہے۔ یا وہ آیات جن کے معانی واضح اور بندے ان سے آگاہ ہیں۔ یا جن کی کوئی تاویل نہیں وہ محکم کہلاتی ہیں اور متشابہ سے مراد وہ آیات ہیں جو منسوخ ہوچکی ہیں۔ مگر تلاوت بھی ہورہی ہے۔ یا حق وصدق میں ایک دوسری کے مشابہ ہیں انہیں متشابہ کہا گیا ہے۔ یا ایسی آیات جن کے معانی ومفاہیم سے صرف اللہ عزوجل ہی آگاہ ہے۔ یا جن کے مفاہیم کئی پہلو رکھتے ہیں وہ متشابہات کہلاتی ہیں۔
2۔ جدال (لڑائی کرنا) بظاہر کوئی قابل تعریف نہیں سمجھا جاتا، مگر اظہار حق اور ابطال باطل کے لیے ازحد ضروری ہے اور قابل تعریف ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس کے لیے علم وحکمت کو شرط قرار دیا ہے۔ ارشاد الہی ہے: (وجادِلهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ) (النحل:١٢٥) محض ریاو سمعہ (شہرت ) اور لوگوں کی توجہات حاصل کرنے کی کوشش میں یا باطل کی تائید میں جدال کرنا حرام ہے۔
3۔ اہل اہواء (اہل بدعت) اور متشابہات کے درپے ہونے والوں سے دور رہنا چاہیے تاکہ انہیں تقویت وشہرت نہ ملے اور کہیں کسی فتنے میں مبتلا نہ کردیں، البتہ راسخ علماء کا فریضہ ہے کہ حق کا اظہار وبیان کریں اور عوام کو باطل سے متنبہ اور آگاہ کرتے رہیں۔
4۔ اور ایسے لوگ مختلف ناموں سے ہر دور میں اور ہر جگہ موجود رہے ہیں۔