تشریح:
معلوم ہوا کہ عمل ایمان کا حصہ ہے، علامہ خطابی ؒ نے لکھا ہے کہ نماز چھوڑنے کی تین صورتیں ہیں:
1: مطلقا نماز کا انکار کرنا، یعنی یہ سمجھنا کہ دین کا کوئی حصہ نہیں، یہ عقیدہ اجماعی طور پر صریح کفر ہے، بلکہ اس طرح سے دین میں ثابت کسی بھی چیز کا انکار کفر ہے۔
2: غفلت اور بھول سے نماز چھوڑ دینا، آدمی بہ اجماع امت کا فر نہیں۔ عمدًا نماز چھوڑے رہنا مگر انکار بھی نہ کرنا، ایسے شخص کے بارے میں ائمہ کا ختلاف ہے۔ ابراہیم نخعی، ابن مبارک، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا یہ قول ہے کہ بلا ناغہ عمدًا تارک صلاۃ حتی کہ اس کا وقت نکل جائے، کافر ہے۔ امام احمد کا کہنا ہے کہ ہم تارک صلاۃ کے سوا کسی کو کسی گناہ پر کافر نہیں کہتے۔ زیادہ سخت موقف امام مکحول اور امام شافعی کا ہے کہ تارک صلاۃ کو اسی طرح قتل کیا جائے جیسے کافر کو کیا جاتا ہے، لیکن اس سبب سے وہ ملت سے خارج نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہو گا۔ اس کے اہل اس کے وارث ہوں گے۔ امام شافعی ؒؒ کے کئی اصحاب نے کہا کہ اس کا جنازہ نہ پڑھاجائے۔ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے اصحاب کا کہنا ہے کہ تارک صلاۃ کو قید کیا جائے اور جسمانی سزا دی جائے حتی کہ وہ نماز پڑھنےلگے۔