تشریح:
اس حدیث میں مجبور اور صاحب اختیار ہونے کا مسئلہ حل فرمایا گیا ہے۔ انسان کا گورا یا کالا ہونا اس کی طبعیت کا سخت یا نرم ہونا۔ ایسا معاملہ ہے جس میں اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں اس میں وہ مجبور محض ہے۔ مگر اسے اختیار ہے کہ طبعیت کی نرمی کو اہل ایمان کے لئے سختی کو کفار کے مقابلے میں استعمال کرے۔ اسی طرح جس میں خیر اور بھلائی کا عنصر ہے اسے اپنے خالق کا بہت زیادہ شکر ادا کرتے ہوئے اپنی اس خیر اور بھلائی کی حفاظت کرنی چاہیے اور جس میں دوسری کیفیت ہو اسے چاہیے کہ رب ذوالجلال کی طرف رجوع کرے اور توفیق طلب کرے کہ وہ اس کی اس حالت کو بدل دے، مگر اپنی غلط عادات پر ڈٹے رہنا اور تقدیر کو مورد الزام ٹھہرانا کسی طرح جائز نہیں۔ اگر تقدیر کے معنی جبر ہوں تو یہ لوگ اپنی بد قماشیوں میں کیوں محنت کرتے ہیں؟ یہ محنت اور کوشش نیکی اور خیر کے لئے بھی ہو سکتی ہے!وہ بد قماشی یا مادی فائدہ اپنی محنت کے ثمرات سمجھتے ہیں تو ان کے ذمہ دار بھی ہیں۔ اللہ تعالی نے زندگی، صحت،عافیت، فہم وفراست اور صلاحیت اور اچھائی سے فطری محبت جیسی تمام نعمتوں سے ہر انسان کو نیکی کی توفیق دی ہوئی ہے، نیکی ہی راستے پر ہر ایک کو آگے بڑھنا چاہیے۔