تشریح:
1۔ جواب اذان کا حکم استحباب پر محمول ہے۔ اور شرعی عذر کے علاوہ تمام کیفیتوں میں اس کا جواب دینا چاہیے۔ حدث۔ جنابت۔ اور حیض۔ اس سے مانع نہیں ہیں۔ نیز اقامت کا جواب بھی اس سے ماخوذ ہے۔ (امام نووی)
2۔ جواب ہر کلمہ پر دینا چاہیے نہ کہ اذان مکمل ہونے پر تاہم ساتھ ساتھ جواب دینے میں کوئی معقول رکاوٹ ہو تو آخر میں اذان کا مکمل جواب دے کر دعایئں پڑھ لے۔ دعوت عمل میں ترغیب وتشویش کا پہلو پیش نظر رکھناچاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے درود پڑھنے کا اجر اسی پہلو سے ارشاد فرمایا ہے۔
3۔ اعمال میں اخلاص شرط ہے۔ ملحوظہ۔ تعجب ہے کہ بدعتی لوگ اپنی دعاؤں میں رسول اللہ ﷺ کے غیر مشروع وسیلے پر اصرار کرتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ اپنی امت سے مطالبہ فرما رہے ہیں۔ کے میرے لیے وسیلے کا اللہ سے سوال کرو۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه في صحيحه بإسناد المصنف. ومن طريقه أبو عوانة في صحيحه ، وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا محمد بن سَلَمة: ثنا ابن وهب عن ابن لهيعة وحَيوَة وسعيد ابن أبي أيوب عن كعب بن علقمة عن عبد الرحمن بن جبَيْرٍ عن عبد الله بن عمرو بن العاص.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم. والحديث أخرجه أبو عوانة في صحيحه (1/337) من طريق المصنف؛ إلا أنه لم يقع في إسناده ابن لهيعة. وأخرجه مسلم (2/4) ... بهذا الإسناد، لكن لم يصرح باسم ابن لهيعة، بل قال: عن حيوة وسعيد بن أبي أيوب وغيرهما. ثم أخرجه أبو عوانة من طريق أخرى عن ابن وهب عن حيوة وحده. وكذلك أخرجه النسائي (1/110) ، ومن طريقه ابن السني (ص 33 رقم 91) ، والترمذي (2/282- طبع بولاق) ، والطحاوي (1/85) ، وابن خزيمة في صحيحه (1/218- 219) ، وكذا ابن حبان (3/99/1688- 1690) ، وأحمد (2/168) من طرق أخرى عن حيوة... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح .