تشریح:
1۔ شیخ البانی کے نزدیک اس کا پہلا حصہ صحیح ہے۔ یعنی جس امام پر اس کی قوم راضی نہ ہو۔ اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ اور امام کی ناپسندیدگی کی وجہ اگر واقعی شرعی ہو تو یہ وعید ہوگی۔ مثلا اس منصب پر جبراً مسلط ہونا۔ نماز بے وقت اور خلاف سنت پڑھانا یا قراءت میں لحن فحش کرنا وغیرہ۔ لیکن اگر ناراضی کے اسباب ذاتی قسم کے ہوں۔ یا فی الواقع شرعی نہ ہوں۔ تو اس وعید سے بری ہوگا۔ نیز متدین (دیندار ) افراد اور ان کی کثیر تعداد کا لحاظ بھی ضروری ہے۔ چند ایک ناراضگی معتبر نہیں ہے۔ چونکہ امام کو مختلف قسم کے لوگوں سے واسطہ رہتا ہے۔ جن کی طبائع ازواق میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس لئے اسے علم۔ حلم۔ اور حکمت سے کام لیتے رہنا چاہیے۔ جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کی صفت کا بیان قرآن کریم میں آیا ہے۔ (وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ) (آل عمران ۔159) اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ سے بکھرجاتے۔
2۔ دوسرے دو امور اگرچہ سندا کمزور ہیں۔ مگر انتہائی اہم ہیں۔ یعنی جو شخص عادتاً جماعت سے پیچھے رہتا ہو۔ یا بردہ فروشی کا کام کرتا ہو۔ یہ کبیرہ گناہ ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ قال المنذري: ’’ عبد الرحمن بن زياد- وهو ابن أنعم الإفريقي- ضعيف ‘‘ . قلت: وشيخه عمران ضعيف أيضاً، ولم يرو عنه غير الافريقي. وقال النووي: ’’ حديث ضعيف ‘‘. قلت: لكن الجملة الأولى منه صحيحة؛ لأن لها شواهد ثابتة، ومن أجلها أوردنا الحديث في الكتاب الآخر أيضاً (رقم 607) ) . لا إسناده: حدثنا القعْنبِي: ثنا عبد الله بن عمر بن غانم عن عبد الرحمن بن
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ عبد الرحمن بن زياد: هو الإفريقي، وهو ضعيف، وقد تقدم. وشيخه عمران بن عبد المعافري؛ قال ابن معين: ’’ ضعيف ‘‘ . وقال ابن القطان: ’’ لا يعرف حاله ‘‘ . وذكره ابن حبان في ’’ الثقات‘‘ ! وشرط أنه يعتبر حديثه من غير رواية الإفريقي وقد ذكره يعقوب بن سفيان في ثقات المصريين! وقال العجلي: ’’ تابعي ثقة ‘‘ . وقال الحافظ: ’’ ضعيف ‘‘ . والحديث أخرجه ابن ماجه (1/307) ، والبيهقي (3/128) من طرق أخرى عن الإفريقي... به. وقال البيهقي: ’’ إنه غير قوي ‘‘ . وقال النووي في ’’ المجموع ‘‘ (4/275) : ’’ حديث ضعيف ‘‘ .
قلت: لكن الجملة الأولى منه قد جاءت من حديث ابن عباس: عند ابن ماجه بإسناد حسن. ورواه ابن حبان في ’’ صحيحه ‘‘ . ومن حديث أبي أمامة: عند الترمذي- وحسنه- وأصاب. ومن حديث قتادة... مرسلاً بإسناد صحيح: عند البيهقي. ولذلك أوردنا الحديث في الكتاب الآخر أيضاً؛ كي لا تفوته جملة صحيحة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ لا سيما وأن الباب منعقد فيه من أجلها.