تشریح:
امام ترمذی بھی یہی لکھتے ہیں کہ زہری کے کچھ تلامذہ (فانتهي الناس عن القراة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلي الله عليه وسلم) کا جملہ جناب زہری کا مقولہ بتا تے ہیں۔۔۔ اور یہ حدیث قائلین قراءت خلف الامام کے خلاف نہیں۔ کیونکہ یہ حدیث (زیر بحث) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ اور وہی یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جو کوئی نماز پڑھے۔ اور اس میں ام القران نہ پڑھے۔ تو ایسی نماز ناقص ہے ناقص ہے کا مل نہیں ہے۔ شاگرد نے کہا کہ میں بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتا ہوں۔ تو انہوں نے فرمایا: اپنے جی میں پڑھ لیا کرو۔ اور ابو عثمان نہدی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی ہیں کہ مجھے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ اعلان کردو کہ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں چنانچہ اکثر اصحاب الحدیث کی ترجیح یہی ہے کہ جب امام جہر کر رہا ہو تو مقتدی قراءت نہ کرے بلکہ سکتات اما م میں پڑھا کرے۔ دیکھئے۔ (جامع ترمذی۔ حدیث 312)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح، وقال الترمذي: حديث حسن ) .إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن ابن شهاب عن ابن أُكَيْمَةَ الليْثِيِّ عن أبي هريرة.قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير ابن أكيمة
- واسمه عمارة، وقيل: عمار، وقيل غير ذلك- وهو ثقة، ولو لم يرو عنه غير الزهري؛ فقد قال أبو حاتم:
صحيح الحديث، حديثه مقبول (1) . وقال يحيى بن سعيد: