تشریح:
1۔ قرآن کریم کو لحن عرب میں پڑھنا مستحب اور مطلوب ہے۔ اور اس میں اپنی سی کوشش اور محنت کرتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ مگر بدوی اور عجمی لوگوں کےلئے عربی اسلوب اور قواعد تجوید پر کماحقہ پورا اترنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے آپ نے مختلف طبقات کے لوگوں کی قراءت کی توثیق فرما کر امت پر آسانی اور احسان فرمایا ہے۔
2۔ایسے لوگوں کا پیدا ہوجانا جو قراءت قرآن کو ریا شہرت اور حطام دنیا (دنیوی سازوسامان) جمع کرنے کا ذریعہ بنا لیں۔ آثار قیامت میں سے ہے۔
3۔ ظاہر الفاظ کی تجوید میں مبالغہ اور آواز زیر وبم ہی کو قراءت جاننا اور مفہوم و معنی سے صرف نظر کرلینا ازحد معیوب ہے۔
4۔تلاوت قرآن اور اس کے درس تدریس میں اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھنا واجب ہے۔
5۔ حدیث نبویﷺ (أَحقُّ ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله) سب سے عمدہ چیز جس پر تم اجر(عوض واجرت) لے سکتے ہو۔ اللہ کی کتاب ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الإجارة، باب: 16) اور مذکورہ بالا حدیث میں تطبیق یہ ہے کہ عظیمت عوض نہ لینے میں ہے۔ تاہم امام شعبی سے مروی ہے کہ معلم اس سلسلے میں کوئی شرط نہ کرے۔ ویسے کچھ دیا جاوے تو قبول کرلے۔ جناب حسن بصری نے اس سلسلے میں دس درہم ادا کیے۔ (حوالہ مذکور) بہر حال مدرس اورداعی حضرات مجاہد کی طرح ہیں۔ اگر اعلائے کلمۃ اللہ کی نیت رکھتے ہوں۔ اور عو ض لیں تو ان شاء اللہ مباح ہے۔ کوئی جرم نہیں۔ لیکن نیت محض مال کھانا ہو تو حرام ہے۔ اور دنیا و آخرت میں اس سے بڑھ کر اور کوئی خسارے کا سودا نہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم إسناده: حدثنا وهب بن بقية: أخبرنا خالد عن حُمَيْد الأعرج عن محمد بن المنكدرعن جابر بن عبد الله قال...
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وحميد: هو ابن قيس الأعرج المكي أبو صفوان القاري الآسدي مولاهم.وخالد: هو ابن عبد الله بن عبد الرحمن بن يزيد الظحان الواسطي المًزَنِي
مولاهم.والحديث أخرجه الإمام أحمد (3/397) : ثنا خلف بن الوليد: ثنا خالد...
به