تشریح:
فوائد و مسائل: (1) پانی میں کوئی پاک چیز مل جائے تو اس کے پاک رہنے میں کوئی شبہ نہیں، مگر لازمی ہے کہ اس اختلاط سے پانی پانی ہی رہے۔ اگر وہ مائع پانی کے بجائے شربت، لسی یا شوربے وغیرہ سے موسو م ہوجاتا ہے تو وہ پانی نہ رہا اور اس سے وضو یا غسل کا کوئی معنی نہیں۔ (2) ’’نبیذ‘‘ عرب کا خاص مشروب ہے جو وہ خشک کھجور یا منقیٰ کو پانی میں بھگوئے رکھنے سے تیار کرتے تھے جیسے ہمارے ہاں املی او رآلو بخارے سےشربت بنایا جاتا ہے۔ (3) رسول اللہﷺ انسانوں کی طرح جنوں کی طرف بھی مبعوث کیے گئے تھے، کئی ایک مواقع پر آپ نے انہیں تبلیغ اور وعظ بھی فرمایا تھا۔ قرآن مجید میں سورۂ جن بالخصوص اس مسئلے کو واضح کرتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ثقات؛ فهو أثر ثابت إذا كان ابن جريح سمعه منه) . إسناده: حدثنا محمد بن بشار: ثنا عبد الرحمن: ثنا بشر بن منصور عن ابن جريج. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ فهو صحيح؛ إذا كان ابن جريج
سمعه من عطاء ولم يدلسه عنه. وعبد الرحمن هذ - وفي الإسناد الذي بعده-: هو ابن مهدي. وهذا الأثر؛ أخرجه البيهقي من طريق المؤلف. وتابعه عبد الرزاق (1/179) عن ابن جريج... به دون قوله: والنبيذ... وعلق عليه المتعصب الأعظمي بقوله: روى ابن أبي شيبة عن علي وعكرمة جواز الوضوء بالنبيذ إ! فأقول: لقد جمع الشيخ- هداه الله- في هذا التخريج: بين تحريف النص، وكتمان العلم! أما الأول: فإن عكرمة لم يطلق ذلك؛ بل قيده بمن لا يجد الماء؛ فإنه قال:
الوضوء بنبيذ لمن لم يجد الماء!وأما الأخر: فإنه لا يصح إسناده عن علي؛ لأنه من رواية حجاج عن أبي إسحاق عن الحارث عن علي. وهذا إسناد واهً بمرة: الحارث: هو الأعور، ضعيف اتهمه بعضهم. والحجاج- وهو ابن أرطاة-، وأبو إسحاق- وهو السبيعي- مدلسان، مع اختلاط السبيعي.