تشریح:
1۔ اس آخری روایت کی سابقہ احادیث سے تایئد ہوتی ہے۔
2۔ حضر ت امامہ بنت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بموجب ان کی وصیت کے نکاح کرلیا تھا مگر ان سے اولاد نہیں ہوئی۔
3۔ رسول اللہ ﷺ کو بچوں سے بہت ہی پیار تھا۔ اور آپ ﷺ ان سے کسی طرح پریشان نہ ہوتے تھے۔
4۔ کچھ فقہاء کرام نے نبی کریم ﷺ کے اس عمل کو آپ ﷺ سے مخصوص باور کرانے کی کوشش کی ہے مگر حق یہ ہے کہ ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے۔ جس کے تحت اس قسم کے اعمال کو آپ سے مخصو ص کیا جاسکے۔ بلکہ اس میں امت کےلئے اسوہ ہے۔ ماں باپ کو اس قسم کی صورت حال کا اکثر سامنا رہتا ہے۔ اور بعض احوال میں امام یا مقتدی کو بھی ایسی صورت پیش آسکتی ہے۔
5۔ چھوٹے بچوں کے جسم اور کپڑے طہارت پرمحمول ہوتے ہیں۔ اور انہیں مسجد میں لے آنا جائز ہے۔ (مگر ایک حد تک)۔
6۔ نماز میں عمل قلیل ہو یا کثیر مباح ہے۔ بشرط یہ ہے کہ قبلے سے انحراف نہ ہو۔ جیسے کہ اس حدیث میں نبی ﷺ نے اپنی نواسی کو نیچے اتارا پھر اٹھایا اور بار بار ایسے کیا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ محمد بن إسحاق مدلس، وقد عنعنه. والحديث في الصحيحين باختصار، وعند المصنف أتم، وهو في الكتاب الآخر (852) ) . إسناده: حدثنا يحيى بن خلف: ثنا عبد الأعلى: ثنا محمد- يعني: ابن إسحاق-. قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير أنه لم يحتج بمحمد بن إسحاق، وإنما استشهد به استشهاداً، ثم هو مدلس معروف بذلك، وقد عنعنه، فهي العلة. والحديث رواه الليث بن سعد عن المقبري... نحوه، لكن ليس فيه تعيين الصلاة أنها الظهر أو العصر، ولا ذِكْرُ بلال. وكذلك رواه آخرون عن عمرو بن سُليْمٍ الزرقي. فالحديث صحيح بدون هذه الزيادات، وهو في الكتاب الأخر (851- 853)