Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Amount Of Water That Is Acceptable For Performing Wudu')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
93.
سیدنا جابر ؓ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ ایک صاع پانی سے غسل اور ایک مد سے وضو کر لیا کرتے تھے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وصحح إسناده الحافظ، وصححه ابن القطان أيضا) . إسناده: حلتنا أحمد بن محمد بن حنيل: ثنا هشيم: أخبرنا يزيد بن أبي زياد عن سالم بن أبي الجعد عن جابر. وهذا إسناد رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير يزيد بن أبي زياد- وهو الهاشمي مولاهم الكوفي-؛ قال في التقريب : ضعيف، كبر فتغير، وصار يتلقن . وقال المنذري في مختصره : يعد في الكوفيين، ولا يحتج به . ومنه تعلم أن قول الحافظ في الفتح (1/244) : إن إسناده صحيح ! غير صحيح. نعم؛ الحديث صحيح باعتبار طرقه وشواهده؛ التي منها حديث عائشة قبله، ومنها عن سفينة مثله: عند مسلم وغيره. وإنما الكلام على خصوص هذا الإسناد، وقد خولف في لفظه يزيد بن أبي زياد كما يأتي. والحديث في مسند أحمد (3/303) بهذا السند. وأخرجه الطيالسي في مسنده (رقم 1732) : حدثنا أبو عوانة عن يزيد بن
أبي زياد... به. فقد اتفق أبو عوانة وهُشيم على روايته عن يزيد هكذا، وهما ثقتان. وخالفهما- في اللفظ والمعنى- علي بن عاصم عنه؛ فرواه بلفظ: عن النّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ و قال: يجْزىُ من الوضوء المد من الماء، ومن الجنابة الصاع . فقال رجل: ما يكفيني! فقال جابر: قد كفى من هو خير منك وأكثر شعراً: رسولَ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
أخرجه أحمد (3/370) . فجمع عاصم عنه بين قوله عليه الصلاة السلام وفعله، وهو وإن كان سيئالحفظ؛ فالظاهر أن يزيد بن أبي زياد هو الذي كان يضطرب في رواية الحديث. والصواب من ذلك رواية علي بن عاصم؛ فقد رواه هكذا محمد بن فضيل عن حصين عن سالم بن أبي الجعد عن جابر بن عبد الله قال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
يجزى من الوضوء المد، ومن الجنابة الصاع . فقال له رجل... الحديث مثل رواية علي بن عاصم. أخرجه الحاكم (1/161) ، والبيهقي (1/195) ، وقال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين ، ووافقه الذهبي. وهو كما قالا.
وفي البخاري و النسائي و البيهقي أيضا بإسناد أخر؛ فيه اغتسال النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بالصاع. وبالجملة؛ قالحديث صحيحِ مرفوعاً إلى النّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من قوله ومن فعله؛ فكان يزيد بن أبي زياد يروي أحيانآ كله وأحياناً بعضه. فمتابعة حصين- وهو ابن عبد الرحمن- له في الكل دليل على أنه قد حفظ (ثمّ رأيت الحافظ في التلخيص (1/199) يعزوه لأبي داود وابن ماجه وابن خزيمة. وقال: وصححه ابن القطان .) . وللحديث عن جابر من فعله عليه السلام طريق آخر: عند ابن ماجه، فيه الربيع بن بدر؛ وهو متروك.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘