تشریح:
1۔ تشہد کے تمام صیغوں میں یہ صیغے صحیح ترین ہیں۔
2۔ (التحیات۔ تحیة) کی جمع ہے اور اس کے معنی ہے۔ سلامتی۔ بقا۔ عظمت۔ بے عیب ہونا۔ اور ملک وملکیت۔ اور بقول علامہ خظابی وبغوی۔ یہ لفظ تعظیم کے تمام تر معانی پر مشتمل ہے۔(الصلوات) صلاۃ کی جمع ہے۔ یعنی عبادت۔ رحمت دعایئں۔ اسی سے مخصوص ہیں۔ (الطیبات) طیبۃ کی جمع ہے۔ یعنی ذکر اذکار اعمال صالح اور اچھی باتیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ التحیات سے قولی عبادات الصلوات سے فعلی عبادات اور الطیبات سے مالی عبادات مراد ہیں۔ دیکھئے (نیل الأوطار: 311/2، 313)
(3) (السلام علیك أیھاالنبي ورحمة اللہ) میں غائب کی بجائے صیغہ خظاب کا درود نبی کریمﷺکی تعلیم ہے۔ اور اس کی حقیقی حکمت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بظاہر یوں ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کےلئے اپنے تحیات پیش کرتا ہے۔ تو اسے یاد دلایا گیا ہے کہ یہ سب کچھ تمھیں نبی کریمﷺ کے ذریعے سے ملا ہے۔ اس لئے بندہ نبی کریم ﷺ کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے آپ کو صیغہ خظاب سے سلام پیش کرتا ہے۔ کچھ لوگوں کا اصرا ر ہے کہ ان الفاظ میں براہ راست رسول اللہ ﷺ کو سنوانا مقصود ہے۔ یہ خیال برحق اوردرست نہیں ہے۔ کیونکہ اس انداز میں خطاب ہمیشہ سنوانے کےلئے نہیں ہوتا اور اس کی دلیل سنن نسائی کی درج زیل حدیث ہے۔ حضرت ابو رافع بیان کرتے ہیں۔ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ فَيَتَحَدَّثُ عِنْدَهُمْ حَتَّى يَنْحَدِرَ لِلْمَغْرِبِ قَالَ أَبُو رَافِعٍ: فَبَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْرِعُ إِلَى الْمَغْرِبِ مَرَرْنَا بِالْبَقِيعِ فَقَالَ: «أُفٍّ لَكَ. أُفٍّ لَكَ». قَالَ: فَكَبُرَ ذَلِكَ فِي ذَرْعِي، فَاسْتَأْخَرْتُ وَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُرِيدُنِي فَقَالَ: «مَا لَكَ امْشِ». فَقُلْتُ: أَحْدَثْتَ حَدَثًا؟ قَالَ: «مَا ذَاكَ؟» قُلْتُ: أَفَّفْتَ بِي؟ قَالَ: «لَا. وَلَكِنْ هَذَا فُلَانٌ بَعَثْتُهُ سَاعِيًا عَلَى بَنِي فُلَانٍ فَغَلَّ نَمِرَةً فَدُرِّعَ الْآنَ مِثْلُهَا مِنْ نَارٍ» (سنن نسائي، الإمامة۔ حدیث: 863) رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد قبیلہ بنو عبدالاشھل کے پاس جاتے اور گفتگو میں مشغول رہتے تھے۔ حتیٰ کے مغرب کے قریب واپس تشریف لاتے۔ ابو رافع کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺنماز مغرب کے لئے جلدی جلدی تشریف لا رہے تھےاورہم بقیع کے پاس سے گزر رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ افسو س ہے تجھ پر افسوس ہے تجھ پر ابو رافع کہتے ہیں کہ اس پر مجھے گرانی محسوس ہوئی۔ اور میں پیچھے ہوگیا۔ میں نے سمجھا کہ شاید آپ میرا ارادہ فرما رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا ہوا؟ آگے چلو۔ میں نے عرض کیا حضرت کیا کوئی بات ہوئی ہے۔؟ فرمایا کیا ہوا ہے۔؟ میں نے کہا آپ نے مجھ پر افسوس کا اظہا ر فرمایا ہے۔ فرمایا۔ نہیں اس فلاں شخص کومیں نے فلاں قبیلے کے پاس عامل بنا کر بھیجا تھا تو اس نے مال میں سے ایک دھاری دارچادر چھپالی۔ چنانچہ اب اسے اسطرح آگ کی چادر پہنائی گئی ہے۔ اس حدیث میں جب رسول اللہ ﷺ کو اس کا منظر دیکھایا گیا۔ تو آ پ ﷺ نے اس پر صیغہ خطاب سے افسوس کا اظہار فرمایا۔ اس طرح نیا چاند یکھنے کی دعا میں ہے۔ «اللَّهُمَّ أَهْلِلْهُ عَلَيْنَا بِاليُمْنِ وَالإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالإِسْلَامِ، رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ» (مستدك حاکم: 285/4۔ حدیث: 7767) اے اللہ!۔۔۔ اے چاند۔میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔یہاں چاند کوسنوانا مقصود نہیں بلکہ تعلیم نبی ﷺ ہے۔الغرض تشہد میں نبی کریم ﷺ کے لئے صیغہ خطاب اسماع (سنوانے) کے لئے نہیں۔ بلکہ تعلیم نبی ﷺ کی بنا پرہے۔ واللہ أعلم۔ اگر سنوانا مقصود ہوتا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وغیرہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد سلام کے صیغہ خطاب کو صیغہ غیب سے ہرگز تبدیل نہ کرتے اور (السلام علی النبيﷺ) نہ پڑھتے۔ اور نہ اس کی تعلیم دیتے۔ دیکھئے۔ (صحیح بخاریو حدیث: 6265)
4۔ لفظ (فلیقل) چاہیے کہ کہے سے استدلال ہے کہ تشہد پڑھنا واجب ہے۔
5۔ سلام سے پہلے دین ودنیا کی حاجات کی طلب بھی مستحب ہے۔ اور یہ دعا کا بہترین وقت اور مقام ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه هو ومسلم وأبو عوانة في صحاحهم . وقال الترمذي: هو أصح حديث روي عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في التشهد ) . إسناده: حدثنا مسدد: أخبرنا يحيى عن سليمان الأعمش: حدثني شقيق ابن سلمة عن عبد الله بن مسعود. قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري؛ وقد أخرجه كما يأتي، وكذا مسلم. والحديث أخرجه أحمد (1/431) : حدثنا يحيى... به. وأخرجه ابن ماجه (1/290) : حدثنا أبو بكر بن خَلآد الباهلي: ثنا يحيى بن سعيد... به. وأخرجه هو، والبخاري (12/37) ، ومسلم (2/14) ، وأبو عوانة (2/229) ، والنسائي (1/174) ، والدارمي (1/308) ، والطحاوي (1/154- 155) ، وابن الجارود (205) ، والبيهقي (2/138) ، وأحمد (1/382) من طرق عن الأعمش. وتابعه منصور عن أبي وائل... به. أخرجه مسلم وأبو عوانة والنسائي وغيرهم. وله متابعون آخرون على صيغة التشهد فقط: عند النسائي وابن حبان (3/203) . وتابعه الأسود بن يزيد عن عبد الله بن مسعود قال: علَمنا رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إذا قعدنا في الركعتين- أن نقول: التحيات... إلخ التشهد. أخرجه الترمذي (2/81) ، والنسائي (1/173- 174) ، وابن ماجه، وقال الت مذي: حديث ابن مسعود قد روي عنه من غير وجه، وهو أصح حديث روي عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في التشهد .