Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: The Obligation of Hajj)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1721.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا اقرع بن حابس ؓ سے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کہ رسول! کیا حج ہر سال ہے یا ایک ہی بار؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں! ایک ہی بار ہے اور جو اس سے زیادہ کرے تو وہ نفل ہے۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ راوی حدیث (ابوسنان) یہ ابوسنان الدؤلی ہیں۔ عبدالجلیل بن حمید اور سلیمان بن کثیر سبھی زہری سے (ابوسنان) ذکر کرتے ہیں۔ صرف عقیل ”سنان“ کہتے ہیں۔ (ابوسنان نہیں کہتے)۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح، وقال الحاكم: صحيح الإسناد ! ووافقه الذهبي! ورواه ابن الجارود مختصراً) .إسناده: حدثنا زهير بن حرب وعثمان بن أبي شيبة- المعنى- قالا: ثنا يزيدابن هارون عن سفيان بن حسين عن الزهري عن أبي سنان عن ابن عباس.قال أبو داود: هو أبو سنان الدُؤَلِي، كذا قال عبد الجليل بن حميد وسليمان ابن كثير جميعاً عن الزهري. وقال عقيل: سنان .
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير أبي سنان الدّؤَلي- واسمه يزيد بن أمية-، وهو ثقة.لكن سفيان بن حسين قد تكلموا في روايته عن الزهري خاصة، ولولا ذلك لكان الإسناد صحيحاً؛ إلا أنه قد تابعه من ذكر المصنف رحمه الله تعالى وغيرهم،كما يأتي.والحديث أخرجه أحمد (1/352) : ثنا يزيد... به.وأخرجه ابن ماجه (2/208) من طريق أخرى عن يزيد بن هارون... به.وصححه الحاكم (1/441) ! ووافقه الذهبي!وأما متابعة عبد الجليل بن حميد؛ فأخرجها النسائي (2/2) .وأما متابعة سليمان بن كثير؛ فوصلها الدارمي (2/29) ، والبيهقي (4/326) ،وأحمد (1/255 و 290) .وتابعه أيضا: محمد بن أبي حفصة وزَمْعَة: عند أحمد (1/370 و 371) .وتابعه عكرمة عن ابنِ عباس... به مختصراً: أخرجه أبو داود الطيالسي(1/202/978) : حدثنا شرِيكٌ وسَلام عن عكرمة... به.وأخرجه الدارمي وأحمد (1/301 و 323 و 325) عن شريك وحده.وتابعهما سِمَاكٌ عن عكرمة... به: رواه ابن الجارود (410) .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا اقرع بن حابس ؓ سے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کہ رسول! کیا حج ہر سال ہے یا ایک ہی بار؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں! ایک ہی بار ہے اور جو اس سے زیادہ کرے تو وہ نفل ہے۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ راوی حدیث (ابوسنان) یہ ابوسنان الدؤلی ہیں۔ عبدالجلیل بن حمید اور سلیمان بن کثیر سبھی زہری سے (ابوسنان) ذکر کرتے ہیں۔ صرف عقیل ”سنان“ کہتے ہیں۔ (ابوسنان نہیں کہتے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ اقرع بن حابس ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا حج ہر سال (فرض) ہے یا ایک بار؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”(ہر سال نہیں) بلکہ ایک بار ہے اور جو ایک سے زائد بار کرے تو وہ نفل ہے۔“۱؎ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوسنان سے مراد ابوسنان دؤلی ہیں، اسی طرح عبدالجلیل بن حمید اور سلیمان بن کثیر نے زہری سے نقل کیا ہے، اور عقیل سے ابوسنان کے بجائے صرف سنان منقول ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے، جس کی فرضیت ۵ یا ۶ ہجری میں ہوئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aqra' ibn Habib: Ibn 'Abbas (RA) said: Aqra' ibn Habis asked the Prophet (ﷺ) saying: Apostle of Allah (ﷺ) hajj is to be performed annually or only once? He replied: Only once, and if anyone performs it more often, he performs a supererogatory act.