Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: How Could A Camel Be Sacrificed)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1767.
جناب ابوخالد احمر، ابن جریج سے، وہ ابو الزبیر سے اور وہ سیدنا جابر ؓ سے روایت کرتے ہیں اور (ابن جریج نے کہا) مجھے عبدالرحمٰن بن سابط نے خبر دی کہ ”نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ اونٹ کو ”نحر“ کیا کرتے تھے جبکہ اس کا بایاں پاؤں بندھا ہوتا اور وہ باقی تین پاؤں پر کھڑا ہوتا۔“
تشریح:
(1) جانور کو ذبح کرنے کےلیے اگر اس کے حلق پر چھری چلائی جائے تو اسے اصطلاحا ً ذبح کرنا کہتے ہیں اور اگر لبہ (حلق کے نیچے ہنسلی کے قریب نرم جگہ) پر چلائی جائے تو اسے نحر کرنا کہتے ہیں۔ اونٹ کو نحر کرنا افضل ہے اور بکر ی کو ذبح کرنا۔ گائے کے لیے دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں مگر اس کے معنی بالعموم ذبح کرنا ہی کیے جاتے ہیں جیسے کہ پیچھے احادیث 1750 اور 1751 میں گزرا ہے۔ (2) اس میں اونٹ کے نحر کرنے کا طریقہ بیان ہوا ہے۔ اونٹ کو اس کے مطابق ہی نحر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح) . إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا أبو خالد الأحمر عن ابن جريج عن أبي الزبير عن جابر. وأخبرني عبد الرحمن بن سابط: أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ...
قلت: إسناده عن جابر موصول على شرط مسلم؛ إلا أن ابن جريج وأبا الزبيركلاهما مدلس، وقد عنعناه.والآخر: مرسل؛ لأن ابن سابط تابعي ثقه، والقائل: (وأخبرني) إنما هو ابن جريج، فهو مرسل صحيح، شاهد للمسند الموصول.والحديث رواه البيهقي (5/237) من طريق المصنف.ويشهد له حديث ابن عمر الآتي بعده.وما أخرجه البيهقي أيضا عن سعيد بن جبير قال:رأيت ابن عمر ينحر بَدَنَتَهُ وهي قائمة معقولة إحدى يديها صافنة.وسنده صحيح.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
جناب ابوخالد احمر، ابن جریج سے، وہ ابو الزبیر سے اور وہ سیدنا جابر ؓ سے روایت کرتے ہیں اور (ابن جریج نے کہا) مجھے عبدالرحمٰن بن سابط نے خبر دی کہ ”نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ اونٹ کو ”نحر“ کیا کرتے تھے جبکہ اس کا بایاں پاؤں بندھا ہوتا اور وہ باقی تین پاؤں پر کھڑا ہوتا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) جانور کو ذبح کرنے کےلیے اگر اس کے حلق پر چھری چلائی جائے تو اسے اصطلاحا ً ذبح کرنا کہتے ہیں اور اگر لبہ (حلق کے نیچے ہنسلی کے قریب نرم جگہ) پر چلائی جائے تو اسے نحر کرنا کہتے ہیں۔ اونٹ کو نحر کرنا افضل ہے اور بکر ی کو ذبح کرنا۔ گائے کے لیے دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں مگر اس کے معنی بالعموم ذبح کرنا ہی کیے جاتے ہیں جیسے کہ پیچھے احادیث 1750 اور 1751 میں گزرا ہے۔ (2) اس میں اونٹ کے نحر کرنے کا طریقہ بیان ہوا ہے۔ اونٹ کو اس کے مطابق ہی نحر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ سے روایت ہے (ابن جریج کہتے ہیں: نیز مجھے عبدالرحمٰن بن سابط نے (مرسلاً) خبر دی ہے) کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام اونٹ کا بایاں پاؤں باندھ کر اور باقی پیروں پر کھڑا کر کے اسے نحر کرتے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اونٹ کو سینہ پر مار کر ذبح کرتے ہیں اس لیے نحر کا لفظ استعمال ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
`Abd al Rahman bin Thabit (RA) said: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and his companions used to sacrifice the camel with its left leg tied and it remained standing on the rest of his legs.