Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Performing The Ifrad Hajj)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1793.
سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص سیدنا عمر بن خطاب ؓ کے پاس آیا اور گواہی دی کہ اس نے رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ کے مرض الموت میں سنا ہے کہ آپ ﷺ حج سے پہلے عمرہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔
تشریح:
امام منذری کہتے ہیں کہ سعید بن مسیب کا حضرت عمر سے سماع صحیح ثابت نہیں ہے۔ (عون) اس لیے یہ روایت صحیح نہیں۔ لیکن ہمارے محقق شیخ زبیر علی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ اس اعتبار سے اس میں نہی استحباب کے لیے ہوگی اور اس سے مطلب یہ ہوگا کہ استطاعت ہونے پر پہلے حج کیا جائے کیونکہ وہ بڑا فریضہ ہے اور زیاد ہ اہم ہے۔ ورنہ خود نبی ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنے حج سے پہلے دو عمرے کیے تھے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده مرسل ضعيف؛ عبد الله بن القاسم فيه جهالة. وسعيد بن المسيب لم يصح سماعه من عمر بن الخطاب. وقال الخطابي: في إسناده مقال ) .إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: ثنا عبد الله بن وهب: أخبرني حيوة:أخبرني أبو عيسى الخراساني...
قلت: وهذا إسناد مرسل ضعيف، سعيد بن المسيب لم يصح سماعه من عمركما قال المنذري.وعبد الله بن القاسم فيه جهالة، لم يوثقه غيرُ ابن حبان؛ لكن روى عنه جمع، وقال الحافظ في التقريب : مقبول .ومثله أبو عيسى الخراساني، بل هو خير منه وأشهر؛ فقد روى عنه جمع أكثر،ووثقه ابن حبان أيضاً، وقال الحافظ: مقبول ؛ لكن قال الذهبي في الميزان : قال ابن القطان: لا يعرف حاله. قلت: ذا ثقة، روى عنه حيوة بن شريح، وسعيد بن أبي أيوب، وابن لهيعة، وجماعة، سكن مصر. ووثقه ابن حبان .وقال الخطابي في معالم السنن : في إسناد هذا الحديث مقال، وقد اعتمر رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عمرتين قبل حجه، والأمر الثابت العلوم لا يترك بالأمر المظنون، وجواز ذلك إجماع من أهل العلم، لم يذكر فيه خلاف . وأقره المنذري.والحديث أحرجه البيهقي (5/19) من طريق المصنف رحمه الله.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص سیدنا عمر بن خطاب ؓ کے پاس آیا اور گواہی دی کہ اس نے رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ کے مرض الموت میں سنا ہے کہ آپ ﷺ حج سے پہلے عمرہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
امام منذری کہتے ہیں کہ سعید بن مسیب کا حضرت عمر سے سماع صحیح ثابت نہیں ہے۔ (عون) اس لیے یہ روایت صحیح نہیں۔ لیکن ہمارے محقق شیخ زبیر علی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ اس اعتبار سے اس میں نہی استحباب کے لیے ہوگی اور اس سے مطلب یہ ہوگا کہ استطاعت ہونے پر پہلے حج کیا جائے کیونکہ وہ بڑا فریضہ ہے اور زیاد ہ اہم ہے۔ ورنہ خود نبی ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنے حج سے پہلے دو عمرے کیے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام میں سے ایک شخص عمر بن خطاب ؓ کے پاس آیا اور اس نے ان کے پاس گواہی دی کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو مرض الموت میں حج سے پہلے عمرہ کرنے سے منع کرتے ہوئے سنا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sa'id ibn al-Musayyab: A man from the Companions of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) came to 'Umar (RA) ibn al-Khattab. He bore witness before him that when he (the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم) was suffering from a disease of which he died he heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) prohibiting performing of 'umrah before hajj.