Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: The Procedure Of The Talbiyah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1814.
جناب خلاد بن سائب انصاری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل ؑ آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ اور دوسرے ساتھ والوں کو حکم دوں کہ تلبیہ کہنے میں اپنی آوازیں اونچی رکھیں۔“ راوی کہتا ہے کہ آپ کے الفاظ «بالإهلال» تھے یا «بالتلبية» (معنی ایک ہی ہیں)۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جبرئیل رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں وحی قرآن کے بغیر بھی حاضر ہوا کرتے تھے اور اس وقت الحکمۃ کی وحی ہوتی لہٰذا حدیث رسول ﷺ بھی وحی [منزل من الله] اور واجب الاتباع ہے۔ (2) عام محدثین نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ تلبیہ کہنے میں آواز اونچی رکھنا مستحب ہے مگر عورتیں اس سےمستثنی ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح، وصححه الترمذي وابن الجارود) .إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن عبد الله بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم عن عبد الملك بن أبي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام عن خَلادِ بن السائب الأنصاري عن أبيه.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير خلاد بن السائب؛ وهو ثقة.والحديث في الموطأ (1/309- 310) ... بهذا الإسناد والمتن.وأخرجه أحمد (4/56) ، والبيهقي (5/42) عن مالك... به.وكذا رواه الدارمي (2/34) .وتابعه سفيان بن عيينة. ثنا عبد الله بن أبي بكر... به: أخرجه أحمدوالحميدي (853) ، وعنه الحاكم (1/450) - وصححه، ووافقه الذهبي-،والنسائي (2/18) ، والترمذي (829) ، وابن ماجه (2/216) ، والدارمي أيضاً،وابن الجارود (434) ، والبيهقي كلهم عن سفيان... به. وقال البيهقي: ورواه ابن جريج قال: كتب إلي عبد الله بن أبي بكر... فذكره، ولم يذكرأبا خلاد في إسناده. والصحيح رواية مالك وابن عيينة عن عبد الله بن أبي بكر عن عبد الملك عن خلاد بن السائب عن أبيه عن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. كذلك قال البخاري و غيره !كذا قال! ورواية ابن جريج عند أحمد مثل رواية مالك وسفيان، فقال: ثنامحمد بن بكر قال: أنا ابن جريج. وروح قال: ثنا ابن جريج قال: كتب إلي عبد الله بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم يقول: حدثني عبد الملك بن أبي بكر بن الحارث أنه حدثه خلاد بن السائب بن سوَيْد الأنصاري عن أبيه السائب ابن خلاد أنه سمع رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول...فلعل ما ذكره البيهقي رواية عن ابن جريج! لكن هذه الرواية المسندة عنه أصح؛ لاتفاق ثقتين عليها عنه، ولموافقتها لرواية مالك وسفيان.وخالفه المطلب بن عبد الله بن حَنْطَبِ فقال: عن خلاد بن السائب عن زيد ابن خالد الجُهنِيَ... مرفوعاً نحوه: أخرجهَ أحمد (5/192) ، وابن ماجه والحاكم والبيهقي وابن حبان أيضاً (974) وصححه الحاكم أيضاً، وقال: لا يعلل واحد منها الآخر ! وخالفه الترمذي فقال: ولا يصح، والصحيح عن خلاد عن أبيه .
قلت: وهذا هو الأرجح؛ لأن المطلب هذا مدلس، وقد عنعنه.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
جناب خلاد بن سائب انصاری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل ؑ آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ اور دوسرے ساتھ والوں کو حکم دوں کہ تلبیہ کہنے میں اپنی آوازیں اونچی رکھیں۔“ راوی کہتا ہے کہ آپ کے الفاظ «بالإهلال» تھے یا «بالتلبية» (معنی ایک ہی ہیں)۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جبرئیل رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں وحی قرآن کے بغیر بھی حاضر ہوا کرتے تھے اور اس وقت الحکمۃ کی وحی ہوتی لہٰذا حدیث رسول ﷺ بھی وحی [منزل من الله] اور واجب الاتباع ہے۔ (2) عام محدثین نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ تلبیہ کہنے میں آواز اونچی رکھنا مستحب ہے مگر عورتیں اس سےمستثنی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سائب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ۱؎ اور ساتھ والوں کو «الإهلال» یا فرمایا «التلبية» میں آواز بلند کرنے کا حکم دوں“۲؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس سے پتہ چلا کہ مردوں کے لئے تلبیہ میں آواز بلند کرنا مستحب ہے، «أصحابي» کی قید سے اس حکم سے عورتیں خارج ہو گئی ہیں ان کے لئے بہتر یہی ہے کہ بلند آواز سے تلبیہ نہ پکاریں۔ ۲؎: اہلال اور تلبیہ دونوں ایک ہی معنی میں ہے، راوی کو شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلال کہا یا تلبیہ، مراد یہ ہے کہ دونوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایک ہی لفظ کہا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated as-Sa'ib al-Ansari (RA): Khalid ibn as-Sa'ib al-Ansari on his father's authority reported the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying: Gabriel came to me and commanded me to order my Companions to raise their voices in talbiyah.