Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Performing Tawaf After Asr)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1894.
سیدنا جبیر بن مطعم ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کسی کو منع مت کرو جس وقت بھی کوئی اس گھر کا طواف کرنا چاہے اور نماز پڑھنا چاہے (تو پڑھنے دو۔) دن ہو یا رات، خواہ کوئی وقت ہو۔“ فضل بن یعقوب نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے (خطاب کرتے ہوئے فرمایا) ”اے بنی عبدمناف! کسی کو منع مت کرو۔“
تشریح:
چونکہ صحیح احادیث میں ایک عام حکم وارد ہے۔ کہ نماز فجر کے بعد نماز نہیں حتیٰ کہ سورج خوب اچھی طرح واضح ہو جائے اور عصر کے بعد نماز نہیں حتیٰ کے سورج غروب ہوجائے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 586 و صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 827) اس لئے یہ فرمان اس کا مخصص ہے کہ بیت اللہ میں عصر کے بعد اور اسی طرح فجر کے بعد طواف جائز ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ان ممنوعہ اوقات میں طواف کی رکعتیں بھی جائز ہوں گی۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم، وكذلك قال الحاكم والذهبي،وصححه الترمذي وابن حبان) .إسناده: حدثنا ابن السرح: ثنا سفيان عن أبي الزبير عن عبد الله بن بَابَاهْ عن جبير بن مطعم.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات على شرط مسلم؛ وابن السرح:اسمه أحمد بن عمرو بن عبد الله.وقد صرح أبو الزبير بسماعه من عبد الله بن باباه، كما يأتي.والحديث أخرجه أحمد (4/80) ، والحميدي (561) قالا: ثنا سفيان... به؛إلا أنه قال: ثنا أبو الزبير أنه سمع عبد الله بن باباه... به في رواية الحميدي.ومن طريقه: أخرجه الحاكم (1/448) ، وقال: صحيح على شرط مسلم ، ووافقه الذهبي.وأخرجه الترمذي (868) ، والنسائي (2/36) ، والدارمي (2/70) ، والطحاوي(1/395) ، وابن حبان (626) والبيهقي (5/92) من طرق أخرى عن سفيان ... به، وقال الترمذي: حديث حسن صحيح .وأخرجه أحمد (4/81 و 84) من طريق ابن جريج قال: أخبرني أبو الزبير أنه سمع عبد الله بن بابِيهْ... به.وتابعه عمرو بن الحارث أن الزبير حدثه... به.أخرجه ابن حبان.وتابعه عبد الله بن أبي نَجِيحٍ عن عبد الله بن بابيه... به.أخرجه أحمد (4/82 و 83) ، والبيهقي (5/110) .وللحديث شاهد من حديث ابن عباس... مرفوعاً نحوه.أخرجه الطحاوي.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا جبیر بن مطعم ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کسی کو منع مت کرو جس وقت بھی کوئی اس گھر کا طواف کرنا چاہے اور نماز پڑھنا چاہے (تو پڑھنے دو۔) دن ہو یا رات، خواہ کوئی وقت ہو۔“ فضل بن یعقوب نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے (خطاب کرتے ہوئے فرمایا) ”اے بنی عبدمناف! کسی کو منع مت کرو۔“
حدیث حاشیہ:
چونکہ صحیح احادیث میں ایک عام حکم وارد ہے۔ کہ نماز فجر کے بعد نماز نہیں حتیٰ کہ سورج خوب اچھی طرح واضح ہو جائے اور عصر کے بعد نماز نہیں حتیٰ کے سورج غروب ہوجائے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 586 و صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 827) اس لئے یہ فرمان اس کا مخصص ہے کہ بیت اللہ میں عصر کے بعد اور اسی طرح فجر کے بعد طواف جائز ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ان ممنوعہ اوقات میں طواف کی رکعتیں بھی جائز ہوں گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اس گھر (کعبہ) کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے کسی کو مت روکو، رات اور دن کے جس حصہ میں بھی وہ کرنا چاہے کرنے دو۔“ فضل کی روایت کے میں ہے: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَا تَمْنَعُوا أَحَدًا» ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے بنی عبد مناف! کسی کو مت روکو۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jubayr ibn Mut'im: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: Do not prevent anyone from going round this House (the Ka'bah) and from praying any moment he desires by day or by night. The narrator Fadl (ibn Ya'qub) said: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: Banu Abdu Munaf, do not stop anyone.