Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: The Tawaf For The One Performing Qiran)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1897.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: ”تیرا بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی، تیرے حج اور عمرے (دونوں) کو کافی ہے۔“ امام شافعی ؓ نے کہا کہ سفیان (بن عیینہ) کبھی سند یوں بیان کرتے «عن عطاء، عن عائشة» اور کبھی یوں کہتے «عن عطاء، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لعائشة»
تشریح:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شروع میں عمرے کا احرام باندھا تھا مگر حیض کے عارضے کی بنا پر رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایا کہ اپنے عمرے کو چھوڑ کر اب حج کی نیت کرلو اور حج کے اعمال ادا کرلو۔ اس طرح وہ قارن ہوگئیں۔ اور پھر انہوں نے دسویں ذی الحجہ کو جو طواف افاضہ (زیارہ) اور سعی کی اسے ہی نبی کریمﷺ نے عمرے اور حج دونوں کے لئے کافی قرار دے دیا۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح. وأخرجه مسلم) .إسناده: حدثنا الربيع بن سليمان المُؤَذِّنُ: أخبرني الشافعي عن ابن عيينة عن ابن أبي نجيح عن عطاء عن عائشة.قال الشافعي: كان سفيان ربما قال: عن عطاء عن عائشة، وربما قال: عن عطاء أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال لعائشة رضي الله عنها ...
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات.ومراد الشافعي: أن سفيان- وهو ابن عيينة- كان يتردد في روايته، فتارة يسنده فيقول: عن عطاء عن عائشة، وتارة يرسله فيقول عن عطاء أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال لعائشة...ولا يضر هذا التردد في صحة الحديث؛ لأنه قد جاء من طريق أخرى عنهاكما يأتي.والحديث أخرجه الشافعي في مسنده (ص 39) ... هكذا.وتابعه عنده: ابن جريج عن عطاء... مرسلاً.وخالفهما إبراهيم بن نافع فقال: حدثني عبد الله بن أبي نجيح عن مجاهد عن عائشة رضي الله عنها:أنها حاضت بِسَرِفَ؛ فتطهرت بعرفة، فقال لها رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُجزئ عنك طوافك بالصفا والمروة عن حجك وعمرتك .أخرجه مسلم (4/34) ، والبيهقي (5/106) .وتابعه عبد الله بن طاوس عم ن أبيه عن عائشة... به نحوه؛ وزاد:فأبت، فبعث بها مع عبد الرحمن إلى التنعيم، فاعتمرت بعد الحج.أخرجاه: مسلم والبيهقي، وأحمد أيضاً (6/124) .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: ”تیرا بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی، تیرے حج اور عمرے (دونوں) کو کافی ہے۔“ امام شافعی ؓ نے کہا کہ سفیان (بن عیینہ) کبھی سند یوں بیان کرتے «عن عطاء، عن عائشة» اور کبھی یوں کہتے «عن عطاء، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لعائشة»
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شروع میں عمرے کا احرام باندھا تھا مگر حیض کے عارضے کی بنا پر رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایا کہ اپنے عمرے کو چھوڑ کر اب حج کی نیت کرلو اور حج کے اعمال ادا کرلو۔ اس طرح وہ قارن ہوگئیں۔ اور پھر انہوں نے دسویں ذی الحجہ کو جو طواف افاضہ (زیارہ) اور سعی کی اسے ہی نبی کریمﷺ نے عمرے اور حج دونوں کے لئے کافی قرار دے دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: ”بیت اللہ کا تمہارا طواف اور صفا و مروہ کی سعی حج و عمرہ دونوں کے لیے کافی ہے۔“ شافعی کہتے ہیں: سفیان نے اس روایت کو کبھی عطاء سے اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے، اور کبھی عطاء سے مرسلاً روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عائشہ ؓ سے فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Ata said: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said to A’ishah your observance of circumambulation of the Ka’bah and your running between As Safa’ and al Marwah (only once) are sufficient for your Hajj and your ‘Umrah. Al Shafi’I said The narrator Sufyan has transmitted this tradition from ‘Ata on the authority of A’ishah (RA) and also narrated it on the authority of ‘Ata stating that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said to A’ishah(RA).