Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding Trimming Short And Shaving The Hair)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1983.
سیدنا ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے منٰی کے دنوں میں سوالات کیے جاتے تھے اور آپ ﷺ فرماتے تھے: ”کوئی حرج نہیں۔“ ایک شخص نے سوال کرتے ہوئے کہا: میں نے قربانی سے پہلے بال مونڈ لیے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”قربانی کرو اور کوئی حرج نہیں۔“ ایک نے کہا: میں نے شام کر دی ہے اور رمی نہیں کی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”رمی کرو اور کوئی حرج نہیں۔“
تشریح:
یوم النحر (دسویں تاریخ) اعمال اگر اس ترتیب سے ہوں کہ پہلے رمی جمرہ پھر قربانی حجامت اور طواف افاضہ ہو تو بہت ہی افضل ہے۔ ورنہ آگے پیچھے بھی جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه من هذا الوجه،ومسلم من طريق أخرى) .إسناده: حدثنا نصر بن علي: أخبرنا يزيد بن زُرَيعْ: أخبرنا خالد عن عكرمةعن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير عكرمة- وهو مولى ابن عباس-؛ فإنه من رجال البخاري وحده، وقد توبع كما يأتي.والحديث أخرجه البخاري (3/448) ، والنسائي (2/50) ، وابن ماجه(2/246) من طرق أخرى عن يزيد بن زريع... به.وأخرجه البيهقي (5/143) من طريق إبراهيم بن طهمان عن خالد الحذاء...به؛ وزاد:ولم يأمر بشيء من الكفارة. وقال: هذا إسناد صحيح .وقال أحمد (1/216) : حدثنا هشيم: أخبرنا خالد... به دونها.وتابعه أيوب عن عكرمة... به.أخرجه البخاري (1/147) ، والبيهقي وأحمد (1/291 و 311) .وتابعه طاوس عن ابن عباس... به نحوه.أخرجه البخاري، ومسلم (4/84) ، والبيهقي، وأحمد (1/258 و 269) .وتابعه عطاء عنه: أخرجه أحمد (1/216) ، والبخاري (3/440) ؛ وزاد:زُرْتُ قبل أن أرمي؟ قال: لا حرج .وهي في رواية له (3/441) سن الطريق الأولى من رواية عبد الأعلى عن خالد... به.وتابعه أيضاً عطاء بن السائب وسعيد بن جبير عنه: عند أحمد (1/300 و 328) .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے منٰی کے دنوں میں سوالات کیے جاتے تھے اور آپ ﷺ فرماتے تھے: ”کوئی حرج نہیں۔“ ایک شخص نے سوال کرتے ہوئے کہا: میں نے قربانی سے پہلے بال مونڈ لیے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”قربانی کرو اور کوئی حرج نہیں۔“ ایک نے کہا: میں نے شام کر دی ہے اور رمی نہیں کی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”رمی کرو اور کوئی حرج نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
یوم النحر (دسویں تاریخ) اعمال اگر اس ترتیب سے ہوں کہ پہلے رمی جمرہ پھر قربانی حجامت اور طواف افاضہ ہو تو بہت ہی افضل ہے۔ ورنہ آگے پیچھے بھی جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے منیٰ کے دن پوچھا جاتا تو آپ ﷺ فرماتے: ”کوئی حرج نہیں۔“ چنانچہ ایک شخص نے پوچھا: میں نے ذبح کرنے سے پہلے حلق کرا لیا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”ذبح کر لو، کوئی حرج نہیں۔“ دوسرے نے کہا: مجھے شام ہو گئی اور میں نے اب تک رمی نہیں کی، آپ ﷺ نے فرمایا: ”رمی اب کر لو، کوئی حرج نہیں۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : حج میں نحر (قربانی) کے دن جمرہ کبری کو کنکری مارنا، ہدی کا جانور ذبح کرنا، بالوں کا حلق (منڈوانا) یا قصر (کٹوانا) پھر طواف افاضہ (طواف زیارہ) (یعنی کعبۃ اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی) میں ترتیب افضل ہے، مگر اس حدیث کی روشنی میں رمی، ذبح، حلق، اور طواف میں ترتیب باقی نہ رہ جائے تو دم لازم نہیں ہو گا، اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) was asked (about rites of Hajj) on the day of stay at Mina. He said: No harm. A man asked him: I got myself shaved before I slaughtered. He said: Slaughter, there is no harm. He again asked: The evening came but I did not throw stones at the jamrah. He replied: Throw stones now ; there is no harm.