Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding 'Umrah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1992.
سیدنا ابن عمر ؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتنے عمرے کیے؟ انہوں نے کہا: دو۔ عائشہ ؓ نے کہا: ابن عمر ؓ کو تو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین عمرے کیے تھے، سوائے اس کے جسے آپ ﷺ نے حجتہ الوداع کے ساتھ ملا کر کیا تھا۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ لعنعنة أبي إسحاق- وهو السبيعي- فإنه مدلس،وكان اختلط، وقد خالفه منصور فقال: عن مجاهد عن ابن عمر قال: إن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعتمر أربع عمر، إحداهن في رجب، قالت عائشة: يرحم الله أبا عبد الرحمن، ما اعتمر عمرة إلا وهو شاهد، وما اعتمر في رجب قط. فهذاهو المحفوظ) .إسناده: حدثنا النفيلي: ثنا زهير: ثنا أبو إسحاق...
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ أبو إسحاق- وهو عمرو بن عبد الله السبيعي-مدلس وقد عنعنه، وكان اختلط، وزهير- وهو ابن معاوية- إنما سمع منه بعدالاختلاط، وقد خولف في متنه كما يأتي.والحديث أخرجه البيهقي (5/10) من طريق المؤلف.وأخرجه أحمد (2/70) : ثنا حسن: ثنا زهير... به.وتابعه شريك عن أبي إسحاق... به.أخرجه أحمد (2/139) . وشريك- هو ابن عبد الله القاضي، وهو- سيئ الحفظ.وتابعه الأعمش عن مجاهد... به مختصراً: عن عائشة قالت: لم يعتمر رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عمرة إلا في ذي القعدة.أخرجه ابن ماجه (2/233) .وتابعه عباد بن عبد الله بن الزبير عنها... به.أحرجه أحمد (6/228) .وتابعه عروة عنها. وهو في الكتاب الآخر (1738) .وقد أشار البيهقي إلى شذوذ رواية أبي إسحاق هذا ونكارتها فقال عقيها: كذا رواه أبو إسحاق عن مجاهد، والرواية الثانية (كذا ولعل الصواب:الثابتة) عن منصور عن مجاهد ليس فيها هذا .ثم ساقها من طريق جرير عن منصور عن مجاهد قال: دخلت أنا وعروةُ بن الزبير المسجد، فإذا عبد الله بن عمر جالس إلى حجرة عائشة رضي الله عنها...ثم قالوا له: كم اعتمر النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قال: أربعاً، إحداهن في رجب، قال: وسمعنااستنان عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها خلف الحجرة، فقال عروة: يا أمه! ألم تسمعي إلى ما يقول أبو عبد الرحمن؟ يقول: إن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعتمر أربع...الحديث وقال: رواه البخاري ومسلم، وكذلك رواه عروة بن الزبير عن عائشة رضي الله عنهافي هذه القصة، وليس فيها ما في رواية أبي إسحاق .يعني: من أن الخلاف بين ابن عمر: وعائشة، في أنه اعتمر اثنتين أم أربعاً،فهذا تفرد به أبو إسحاق، والصحيح المحفوظ: أنهما اتفقا أنها أربع، فقال ابن عمر:إحداهن في رجب فخطأته عائشة فأصابت.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا ابن عمر ؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتنے عمرے کیے؟ انہوں نے کہا: دو۔ عائشہ ؓ نے کہا: ابن عمر ؓ کو تو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین عمرے کیے تھے، سوائے اس کے جسے آپ ﷺ نے حجتہ الوداع کے ساتھ ملا کر کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عمر ؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتنے عمرے کئے؟ انہوں نے جواب دیا: دو بار۱؎، اس پر ام المؤمنین عائشہ ؓ نے کہا: ابن عمر ؓ کو یہ معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عمرے کے علاوہ جو آپ نے حجۃ الوداع کے ساتھ ملایا تھا تین عمرے کئے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عمرہ حدیبیہ کو اور اسی طرح حج کے ساتھ والے عمرہ کو شمار نہیں کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Mujahid said: Ibn 'Umar (RA) was asked: How many times did the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) perform 'Umrah? He said: Twice. 'Aishah said: Ibn 'Umar knew that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) performed three 'Umrahs in addition to the one he combined with the Farewell Pilgrimage.