Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Regarding The Ghusl For Janabah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
247.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ (شروع شروع میں) نمازیں پچاس اور غسل جنابت سات سات بار تھا۔ اسی طرح وہ کپڑا جسے پیشاب لگ جاتا اس کا دھونا بھی سات بار تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ اس بارے میں (تخفیف کا) سوال برابر کرتے رہے حتیٰ کہ نمازوں کو پانچ اور غسل جنابت اور پیشاب لگے کپڑے کا دھونا ایک بار کر دیا گیا۔
تشریح:
مسئلہ اسی طرح ہےکہ غسل جنابت میں ایک باجسم پر پانی بہانا واجب ہے۔ ایسے ہی کپڑے کا دھونا بھی ایک ہی بار ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ لأن أيوب بن جابر واهي الحديث. وعبد الله بن عصم مختلف فيه. وقال المنذري: تكلم فيه غير واحد، والراوي عنه: أيوب ابن جابر أبو سليمان اليمامي، ولا يحتج بحديثه ) . إسناده: حدثنا قتيبة بن سعيد: نا أيوب بن جابر. وهذا إسناد ضعيف؛ أيوب بن جابر ضعفه الجمهور، فقال ابن معين: ضعيف ليس بشيء . وقال النسائي: ضعيف . وقال أبو زرعة: واهي الحديث ضعيف . وقال أبو حاتم: ضعيف الحديث . وقال ابن حبان: كان يخطئ، حتى خرج عن حد الاحتجاج به؛ لكثرة وهمه . وذكره يعقوب بن سفيان في باب من يرغب عن الرواية عنهم . وقال أحمد ابن عصام الأصبهاني: كان علي بن المديني يضع حديث أيوب بن جابر؛ أيْ: يضعفه . وقال ابن عدي: وسائر أحاديث أيوب بن جابر متقاربة، يحمل بعضها بعضاً، وهو ممن يكتب حديثه . وأما أحمد؛ فقال ابنه عبد الله عنه: حديثه يشبه حديث أهل الصدق . وقال الحافظ في التقريب : إنه وشيخه عبد الله بن عصْمٍ مختلف فيه؛ فقال ابن معين: ثقة . وقال أبو زرعة: ليس به بأس . وقال أبو حاتم: شيخ . وقال ابن حبان في الثقات : يخطئ كثيراً وقد ذكره أيضاً في الضعفاء ، فقال: منكر الحديث جداً، على قلة روايته، يحدث عن الأثبات ما لا يشبه أحاديثهم، حتى يسبق إلى القلب أنها موهومة أو موضوعة . وقال الحافظ في التقريب : هو صدوق يخطئ، أفرط ابن حبان فيه وتناقض . والحديث أخرجه أحمد (2/109) ، والبيهقي (1/244) من طريق أخرى عن أيوب بن جابر... به.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ (شروع شروع میں) نمازیں پچاس اور غسل جنابت سات سات بار تھا۔ اسی طرح وہ کپڑا جسے پیشاب لگ جاتا اس کا دھونا بھی سات بار تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ اس بارے میں (تخفیف کا) سوال برابر کرتے رہے حتیٰ کہ نمازوں کو پانچ اور غسل جنابت اور پیشاب لگے کپڑے کا دھونا ایک بار کر دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
مسئلہ اسی طرح ہےکہ غسل جنابت میں ایک باجسم پر پانی بہانا واجب ہے۔ ایسے ہی کپڑے کا دھونا بھی ایک ہی بار ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں پہلے پچاس (وقت کی) نماز (فرض ہوئی) تھیں، اور غسل جنابت سات بار کرنے کا حکم تھا، اسی طرح پیشاب کپڑے میں لگ جائے تو سات بار دھونے کا حکم تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ (اپنی امت پر برابر اللہ تعالیٰ سے تخفیف کا) سوال کرتے رہے، یہاں تک کہ نماز پانچ کر دی گئیں، جنابت کا غسل ایک بار رہ گیا، اور پیشاب کپڑے میں لگ جائے تو اسے بھی ایک بار دھونا رہ گیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Umar (RA): There were fifty prayers (obligatory in the beginning); and (in the beginning of Islam) washing seven times because of sexual defilement (was obligatory); and washing the urine from the cloth seven times (was obligatory). The Apostle of Allah (ﷺ) kept on praying to Allah until the number of prayers was reduced to five and washing because of sexual defilement was allowed only once and washing the urine from the clothe was also permitted only once.