Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Places Where It Is Prohibited To Urinate)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
26.
سیدنا معاذ بن جبل ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لعنت کے تین کاموں سے بچو۔‘‘ (یعنی) پانی کے گھاٹ پر پاخانہ کرنے سے، عین راستے میں یا (لوگوں کے) سائے میں۔‘‘
تشریح:
فائدہ: یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ البتہ صحیح حدیث یہ ہے: دو لعنت والےکاموں سے بچو، ایک یہ کہ عام گزرگاہ میں پاخانہ کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ لوگوں کی سائے والی جگہ میں یہ کام کیا جائے۔ (صحیح مسلم، حدیث :269) اس حدیث سے یہ استدلال صحیح ہے کہ گھاٹ سمیت ایسی تمام جگہوں پر بول وبراز کرنا صحیح نہیں جس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف ہو۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف ( انظر نهاية تخريج هذا الحديث (ص 57) . (الناشر) .) للانقطاع بين معاذ بن جبل وبين الحميري، وأعله المصنف وغيره، ولجهالة الحميري هذا وضعفه المنذري وابن حجر) .
إسناده: أما الانقطاع فنقل المنذري في الترغيب (1/83) عن المصنف رحمه الله أنه قال: هو مرسل. يعني أن أبا سعيد لم يدرك معاذاً ، ونقله الحافظ أيضا في تهذيب التهذيب عنه ثم قال:
وقال- يعني المصنف- في كتاب التفرد عقب حديثه- يعني هذا- ليس هذا بمتصل . وأما الجهالة: فقال أبو الحسن القطان: أبو سعيد هذا شامي مجهول الحال . وقال الذهبي: لا يدرى من هو . وقال لحافظ في التقريب : مجهولْ، وروايته عن معاذ مرسلة . والحديث أخرجه ابن ماجه أيضا والحاكم وعنه البيهقي من طريق حيوة عن أبي سعيد به. وقال الحاكم: صحيح الإسناد ووافقه الذهبي! وكذا صححه ابن السكن. قال الحافظ في التلخيص (1/461) : وفيه نظر لأن أبا سعيد لم يسمع من معاذ، ولا يعرف هذا الحديث بغير هذا الإسناد. قاله ابن القطان . فقول النووي في المجموع (2/86) : إسناده جيد غير جيد. وللحديث شاهد من حديث ابن عباس مرفوعاً: بلفظ: قيل: ما الملاعن يا رسول الله؟ قال: أن يقعد أحدكم في ظل يستظل فيه، أو في طريق، أو في نقع ماء . أخرجه الإمام أحمد (1/299) : ثنا عتاب بن زياد ثنا عبد الله قال: أنا ابن لهيعة قال: ثتي ابن هبيرة قال: أخبرني من سمع ابن عباس. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات؛ غير الرجل الذي لم يسم. وقال الحافظ في بلوغ المرام (1/102) بعد أن ذكر الحديث من رواية معاذ وابن عباس: وفيهما ضعف ، وبين سبب ذلك في هذا بقوله في التلخيص : وفيه ضعف لأجل ابن لهيعة. والراوي عن ابن عباس ميهم . وأشار إلى هذا الهيثمي في المجمع (1/204) ، وفيه نظر؛ فإن ابن لهيعة صحيح الحديث إذا روى عنه عبد الله بن المبارك وغيره من العبادلة؛ كما قال عبد الغني الأزدي وغيره، والحافظ نفسه يقول في ترجمته من التقريب : ورواية ابن المبارل وابن وهب عنه أعدل من غيرهما . وهذا الحديث من رواية ابن المبارك عنه فإنه هو عبد الله الذي لم ينسب فيه، وعليه فعلة الحديث جهالة التابعي، ولولا ذلك لأوردت الحديث بسبب شاهده هذا في صحيح المصنف ه وقد روى عن أبي هريرة نحوه دون ذكر الموارد، فانظر رقم (20) من الصحيح . ثم بدا لي نقل الحديث إلى صحيح السن [هنا] لشواهد أخرى أوردتها في تخريج منار السبيل (1/100) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا معاذ بن جبل ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لعنت کے تین کاموں سے بچو۔‘‘ (یعنی) پانی کے گھاٹ پر پاخانہ کرنے سے، عین راستے میں یا (لوگوں کے) سائے میں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ: یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ البتہ صحیح حدیث یہ ہے: دو لعنت والےکاموں سے بچو، ایک یہ کہ عام گزرگاہ میں پاخانہ کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ لوگوں کی سائے والی جگہ میں یہ کام کیا جائے۔ (صحیح مسلم، حدیث :269) اس حدیث سے یہ استدلال صحیح ہے کہ گھاٹ سمیت ایسی تمام جگہوں پر بول وبراز کرنا صحیح نہیں جس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لعنت کی تین چیزوں سے بچو: مسافروں کے اترنے کی جگہ میں، عام راستے میں، اور سائے میں پاخانہ پیشاب کرنے سے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mu'adh ibn Jabal: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: Be on your guard against three things which provoke cursing: easing in the watering places and on the thoroughfares, and in the shade (of the tree).