Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Supplication At The Time Of Mounting An Animal)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2602.
جناب علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کے ہاں حاضر تھا کہ سوار ہونے کے لیے آپ کے سامنے سواری لائی گئی۔ آپ نے جب اپنا پاؤں رکاب میں ڈال لیا تو کہا: «بسم الله» پھر جب ٹھیک طرح سے اس پر بیٹھ گئے تو کہا: «الحمد الله» پھر کہا: «سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ» ”پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو ہمارے تابع کیا اور ہم از خود اس کو اپنا تابع نہ بنا سکتے تھے اور بلاشبہ ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔“ پھر کہا: «الحمد الله» تین بار۔ پھر کہا: «الله اكبر» تین بار۔ پھر کہا: «سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي, فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ» ”اے اﷲ! تو پاک ہے میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے تو مجھے معاف فرما دے، بلاشبہ تیرے سوا اور کوئی نہیں جو گناہوں کو بخش سکے۔“ پھر آپ ہنسے۔ آپ سے کہا گیا: امیر المؤمنین! آپ کس بات پر ہنسے ہیں؟ فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تھا کہ آپ ﷺ نے ایسے ہی کیا تھا، جیسے کہ میں نے کیا ہے اور آپ ﷺ ہنسے (بھی) تھے، تو میں نے آپ ﷺ سے دریافت کیا تھا: اے اﷲ کے رسول! آپ کس بات پر ہنسے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ تیرے رب کو اپنے بندے پر تعجب آتا ہے جب وہ کہتا ہے (الٰہی!) میرے گناہ بخش دے، بندہ جانتا ہے کہ تیرے سوا گناہوں کو کوئی بخش نہیں سکتا۔“
تشریح:
اسلام انسان کا مذاج ایسا بنا دینا چاہتا ہے۔ کہ زندگی کا کوئی لمحہ بھی ایسا نہ گزرے جس سے وہ اپنے خالق ومالک سے غافل ہو۔ چاہیے کہ ہر حال میں اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے۔اور اسی طرح جس طرح رسول اللہ ﷺنے کر کے دیکھایا ہے۔ اسے بقدر امکان اختیار کیا جائے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، صححه الترمذي وابن حبان والحاكم والذهبي) . إسناده: حدثنا مسدد: ثنا أبو الأحوص: ثنا أبو إسحاق الهَمْدَاني عن علي ابن ربيعة.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال البخاري؛ وأبو الأحوص: اسمه سَلام بن سُلَيْم الحَنَفِي- مولاهم-. وأبو إسحاق: هو السَّبِيعِيّ، وهو مدلس؛ وكان قد اختلط، وقد جاء ما يدل على أنه أسقط واسطتين بينه وبين علي بن ربيعة: فذكر الحافظ المِزِّي في التحفة (7/436) : أن عبد الرحمن بن مهدي قال: عن شعبة: قلت لأبي إسحاق: ممن سمعته؟ قال: من يونس بن خَبّاب. فلقيت يونس بن خباب؛ قلت: ممن سمعته؟ قال: من رجل سمعه من علي بن ربيعة. رواه شعيب بن صفوان عن يونس بن خَبَّاب عن شَقِيقِ بن عُقْبَةَ الأسَدِيِّ عن علي بن ربيعة . انتهى ما في التحفة . وأقول: ويعكر على قول أبي إسحاق- المذكور- ما رواه عبد الرزاق عن معمر عنه قال: أخبرني علي بن ربيعة: أنه شهد علياً حين ركب... الحديث. أخرجه البيهقي (5/252) ؛ وسنده صحيح إلى أبي إسحاق. فالظاهر أن هذا من تخاليطه؛ لأن معمراً ممن روى عنه بعد الاختلاط. ثم وجدت الحديث في مسند أحمد (1/115) ؛ رواه عن عبد الرزاق: ثنا معمر عن أبي إسحاق عن علي بن ربيعة، قاله مرة. قال عبد الرزاق: وأكثر ذاك يقول: أخبرني من شهد عليّاً حين ركب... فهذا يؤكد أن أبا إسحاق لم يحفظ الحديث يقول: أخبرني، فكان يضطرب في إسناده، فتاة يقول: عن علي بن ربيعة- وهي رواية الجماعة-، وتارة يقول: أخبرني علي بن ربيعة- وهي رواية البيهقي-. ونحوها رواية أحمد؛ إلا أنه لم يُسَمِّ علي بن ربيعة. وكل ذلك من اختلاطه، وتأيد ذلك بتصريحه قبل اختلاطه بأنه سمعه من يونس بن خباب؛ كما تقدم في سؤال شعبة إياه، وهو قد سمع منه قبل الاختلاط. ويونس هذا فيه ضعف؛ فهو علة هذه الطريق! لكنه قد جاء من طريق أخرى كما يأتي؛ فالحديث بها صحيح إن شاء الله تعالى. والحديث أخرجه الترمذي (3443) ، وفي الشمائل (233- حمص) و (مختصري له) ، والنسائي في سير الكبرى ، وابن حبان (2381) كلهم بسند واحد عن قتيبة بن سعيد: حدثنا أبو الأحوص... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ! ثم رواه النسائي وابن حبان (2380) ، والحاكم (2/99) ، وأحمد (1/97 و 128) من طرق أخرى عن أبي إسحاق... به. وأخرجه الحاكم من الطريق الأخرى عن المِنْهَال بن عمروٍ عن علي بن ربيعة... به، وقال: صحيح على شرط مسلم ! ووافقه الذهبي! والمنهال إنما روى له البخاري فقط.
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
جناب علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کے ہاں حاضر تھا کہ سوار ہونے کے لیے آپ کے سامنے سواری لائی گئی۔ آپ نے جب اپنا پاؤں رکاب میں ڈال لیا تو کہا: «بسم الله» پھر جب ٹھیک طرح سے اس پر بیٹھ گئے تو کہا: «الحمد الله» پھر کہا: «سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ» ”پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو ہمارے تابع کیا اور ہم از خود اس کو اپنا تابع نہ بنا سکتے تھے اور بلاشبہ ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔“ پھر کہا: «الحمد الله» تین بار۔ پھر کہا: «الله اكبر» تین بار۔ پھر کہا: «سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي, فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ» ”اے اﷲ! تو پاک ہے میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے تو مجھے معاف فرما دے، بلاشبہ تیرے سوا اور کوئی نہیں جو گناہوں کو بخش سکے۔“ پھر آپ ہنسے۔ آپ سے کہا گیا: امیر المؤمنین! آپ کس بات پر ہنسے ہیں؟ فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تھا کہ آپ ﷺ نے ایسے ہی کیا تھا، جیسے کہ میں نے کیا ہے اور آپ ﷺ ہنسے (بھی) تھے، تو میں نے آپ ﷺ سے دریافت کیا تھا: اے اﷲ کے رسول! آپ کس بات پر ہنسے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ تیرے رب کو اپنے بندے پر تعجب آتا ہے جب وہ کہتا ہے (الٰہی!) میرے گناہ بخش دے، بندہ جانتا ہے کہ تیرے سوا گناہوں کو کوئی بخش نہیں سکتا۔“
حدیث حاشیہ:
اسلام انسان کا مذاج ایسا بنا دینا چاہتا ہے۔ کہ زندگی کا کوئی لمحہ بھی ایسا نہ گزرے جس سے وہ اپنے خالق ومالک سے غافل ہو۔ چاہیے کہ ہر حال میں اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے۔اور اسی طرح جس طرح رسول اللہ ﷺنے کر کے دیکھایا ہے۔ اسے بقدر امکان اختیار کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی بن ربیعہ ؓ کہتے ہیں کہ میں علی ؓ کے پاس حاضر ہوا، آپ کے لیے ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہوں، جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو «بسم الله» کہا، پھر جب اس کی پشت پر ٹھیک سے بیٹھ گئے تو «الحمد الله» کہا، اور «سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ» کہا، پھر تین مرتبہ «الحمد الله» کہا، پھر تین مرتبہ «الله اكبر» کہا، پھر «سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي, فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ» کہا، پھر ہنسے، پوچھا گیا: امیر المؤمنین! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا جیسے کہ میں نے کیا پھر آپ ہنسے تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہیں ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے: میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali ibn Abu Talib (RA): 'Ali ibn Rabi'ah said: I was present with 'Ali while a beast was brought to him to ride. When he put his foot in the stirrup, he said: "In the name of Allah". Then when he sat on its back, he said: "Praise be to Allah." He then said: "Glory be to Him Who has made this subservient to us, for we had not the strength, and to our Lord do we return". He then said: "Praise be to Allah (thrice); Allah is Most Great (thrice): glory be to Thee, I have wronged myself, so forgive me, for only Thou forgivest sins". He then laughed. He was asked: At what did you laugh? He replied: I saw the Apostle of Allah (ﷺ) do as I have done, and laugh after that. I asked: Apostle of Allah (ﷺ), at what are you laughing? He replied: Your Lord, Most High, is pleased with His servant when he says: "Forgive me my sins". He know that no one forgives sins except Him.