باب: ( قتال کے موقع پر ) کفار کو اسلام کی دعوت دینا
)
Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Regarding Calling Idolators To Islam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2612.
سیدنا سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب (کسی شخص کو) کسی دستے یا کسی بڑے لشکر کا امیر بنا کر روانہ کرتے تو اسے خود اپنی ذات میں اﷲ کا تقویٰ اختیار کرنے اور اپنی معیت میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتے اور فرماتے: ”جب تم اپنے مشرک دشمن کے مقابلے پر آؤ تو انہیں تین باتوں کی دعوت دو، وہ جسے بھی اختیار کرنا چاہیں کر لیں اور پھر جو وہ اختیار کر لیں اسے قبول کر لینا اور اپنے ہاتھ کو ان سے روک لینا۔ (سب سے پہلے) انہیں اسلام کی دعوت دینا، اگر وہ اسے قبول کر لیں تو تم بھی ان سے قبول کر لو اور ان سے اپنے ہاتھ روک لو۔ پھر انہیں دعوت دو کہ وہ اپنا علاقہ چھوڑ کر دارالمہاجرین میں منتقل ہو جائیں اور انہیں بتاؤ کہ اگر انہوں نے یہ امر قبول کر لیا تو ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مہاجرین کو حاصل ہیں اور ان پر وہ سب کچھ واجب ہو گا جو ان مہاجرین پر واجب ہے، اگر وہ منتقل ہونا قبول نہ کریں اور اپنے علاقوں ہی میں رہنا چاہیں، تو انہیں بتانا کہ وہ بدوی مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان پر اﷲ کا حکم اسی طرح نافذ ہو گا جیسے کہ دیگر مومنین پر نافذ ہوتا ہے، (مال) فے اور غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا، سوائے اس کے کہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہوں۔ (2) پس اگر وہ لوگ اسلام قبول کرنے سے انکاری ہوں تو انہیں کہنا کہ جزیہ دینا قبول کریں اگر وہ اس پر راضی ہو جائیں تو اسے قبول کر لینا اور اپنا ہاتھ ان سے روک لینا۔ (3) اگر وہ جزیہ دینے پر راضی نہ ہوں تو اﷲ کی مدد طلب کرتے ہوئے ان سے قتال کرنا۔ اور جب تم کسی قلعے والوں کا محاصرہ کر لو اور پھر وہ تم سے یہ چاہیں کہ ان کو ہتھیار ڈالنے دو، اس شرط پر کہ ان پر اﷲ کا حکم نافذ ہو تو یہ بات قبول نہ کرنا کیونکہ تم نہیں جانتے کہ ان کے بارے میں اﷲ کا فیصلہ کیا ہے، لیکن انہیں اپنی شرطوں اور فیصلے کے مطابق ہتھیار ڈالنے کی اجازت دو اور پھر جو چاہو ان کے متعلق فیصلہ کرو۔“ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ علقمہ نے کہا: میں نے یہ حدیث مقاتل بن حیان سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: مجھے مسلم نے بیان کیا۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: اس (مسلم) سے مراد مسلم بن ہیصم ہے۔ اس نے نعمان بن مقرن ؓ سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا جیسے کہ سیلمان بن بریدہ نے بیان کیا ہے۔
تشریح:
1۔ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا۔ اور اب بھی ان قوموں سے متعلق ہے۔ جن کو اسلام کی دعوت واضح طور سے نہ پہنچی ہو۔ (صحیح البخاري، العتق، حدیث: 2541 و صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 1730 و سنن أبي داود، حدیث: 2633) 2۔ دین اسلا م کی دوسرے دینوں سے آویزش صرف اور صرف اللہ کی مخلوق تک اس کا کلمہ پہنچانے اور غالب کرنے کے لئے ہے۔ اس میں محض ملکوں کو فتح کرنا یا لوگوں کو اپنے تابع کرنا نہیں ہے۔ 3۔ امیر مجاہدین (اور اس طرح دیگر مفتیان اور مجتہدین) کا فیصلہ بالعموم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دیئے ہوئے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ان میں سے اس کے حق یا خطا ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ (ان اجتہادی امور میں) عین یہی دعویٰ کرنا کہ یہی اللہ کا فیصلہ ہے۔ بالکل غلط ہے۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ کی زبان سے صادر ہونے والے فیصلے اور احکام عین اللہ کے فیصلے ہوتے تھے۔ اور عین شریعت ہوتے تھے کیونکہ ﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾ (النجم: 3۔4) آپ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے مگر جو اللہ کی وحی ہوتی ہے اور اجتہادی امور میں جہاں کہیں کوئی خطا ہوتی بھی تو فورا ً اس کی اصلاح ہوجاتی تھی نبی کریم ﷺکے بعد کسی بھی امتی کو یہ مقام حاصل نہیں ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرجه مسلم وأبو عوانة وابن الجارود. وقال الترمذي: حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا محمد بن سليمان الأنباري: ثنا وكيع عن سفيان عن علقمة ابن مَرْثَد عن سليمان بن بريدَةَ.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير الأنباري شيخ المؤلف، وهو ثقة. وقد توبع من جمع، منهم الإمام أحمد (5/352) : ثنا وكيع... به. وسفيان: هو الثوري. والحديث أخرجه البيهقي (9/184) من طريق المؤلف. ورواه هو، ومسلم وأبو عوانة وغيرهم من طرق أخرى عن سفيان... به. وهو مخرج في إرواء الغليل (1247) من مصادر عديدة من دواوين السنة؛ فليراجعه من شاء الوقوف عليها.
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب (کسی شخص کو) کسی دستے یا کسی بڑے لشکر کا امیر بنا کر روانہ کرتے تو اسے خود اپنی ذات میں اﷲ کا تقویٰ اختیار کرنے اور اپنی معیت میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتے اور فرماتے: ”جب تم اپنے مشرک دشمن کے مقابلے پر آؤ تو انہیں تین باتوں کی دعوت دو، وہ جسے بھی اختیار کرنا چاہیں کر لیں اور پھر جو وہ اختیار کر لیں اسے قبول کر لینا اور اپنے ہاتھ کو ان سے روک لینا۔ (سب سے پہلے) انہیں اسلام کی دعوت دینا، اگر وہ اسے قبول کر لیں تو تم بھی ان سے قبول کر لو اور ان سے اپنے ہاتھ روک لو۔ پھر انہیں دعوت دو کہ وہ اپنا علاقہ چھوڑ کر دارالمہاجرین میں منتقل ہو جائیں اور انہیں بتاؤ کہ اگر انہوں نے یہ امر قبول کر لیا تو ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مہاجرین کو حاصل ہیں اور ان پر وہ سب کچھ واجب ہو گا جو ان مہاجرین پر واجب ہے، اگر وہ منتقل ہونا قبول نہ کریں اور اپنے علاقوں ہی میں رہنا چاہیں، تو انہیں بتانا کہ وہ بدوی مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان پر اﷲ کا حکم اسی طرح نافذ ہو گا جیسے کہ دیگر مومنین پر نافذ ہوتا ہے، (مال) فے اور غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا، سوائے اس کے کہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہوں۔ (2) پس اگر وہ لوگ اسلام قبول کرنے سے انکاری ہوں تو انہیں کہنا کہ جزیہ دینا قبول کریں اگر وہ اس پر راضی ہو جائیں تو اسے قبول کر لینا اور اپنا ہاتھ ان سے روک لینا۔ (3) اگر وہ جزیہ دینے پر راضی نہ ہوں تو اﷲ کی مدد طلب کرتے ہوئے ان سے قتال کرنا۔ اور جب تم کسی قلعے والوں کا محاصرہ کر لو اور پھر وہ تم سے یہ چاہیں کہ ان کو ہتھیار ڈالنے دو، اس شرط پر کہ ان پر اﷲ کا حکم نافذ ہو تو یہ بات قبول نہ کرنا کیونکہ تم نہیں جانتے کہ ان کے بارے میں اﷲ کا فیصلہ کیا ہے، لیکن انہیں اپنی شرطوں اور فیصلے کے مطابق ہتھیار ڈالنے کی اجازت دو اور پھر جو چاہو ان کے متعلق فیصلہ کرو۔“ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ علقمہ نے کہا: میں نے یہ حدیث مقاتل بن حیان سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: مجھے مسلم نے بیان کیا۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: اس (مسلم) سے مراد مسلم بن ہیصم ہے۔ اس نے نعمان بن مقرن ؓ سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا جیسے کہ سیلمان بن بریدہ نے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا۔ اور اب بھی ان قوموں سے متعلق ہے۔ جن کو اسلام کی دعوت واضح طور سے نہ پہنچی ہو۔ (صحیح البخاري، العتق، حدیث: 2541 و صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 1730 و سنن أبي داود، حدیث: 2633) 2۔ دین اسلا م کی دوسرے دینوں سے آویزش صرف اور صرف اللہ کی مخلوق تک اس کا کلمہ پہنچانے اور غالب کرنے کے لئے ہے۔ اس میں محض ملکوں کو فتح کرنا یا لوگوں کو اپنے تابع کرنا نہیں ہے۔ 3۔ امیر مجاہدین (اور اس طرح دیگر مفتیان اور مجتہدین) کا فیصلہ بالعموم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دیئے ہوئے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ان میں سے اس کے حق یا خطا ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ (ان اجتہادی امور میں) عین یہی دعویٰ کرنا کہ یہی اللہ کا فیصلہ ہے۔ بالکل غلط ہے۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ کی زبان سے صادر ہونے والے فیصلے اور احکام عین اللہ کے فیصلے ہوتے تھے۔ اور عین شریعت ہوتے تھے کیونکہ ﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾ (النجم: 3۔4) آپ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے مگر جو اللہ کی وحی ہوتی ہے اور اجتہادی امور میں جہاں کہیں کوئی خطا ہوتی بھی تو فورا ً اس کی اصلاح ہوجاتی تھی نبی کریم ﷺکے بعد کسی بھی امتی کو یہ مقام حاصل نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی لشکر یا سریہ کا کسی کو امیر بنا کر بھیجتے تو اسے اپنے نفس کے بارے میں اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتے، اور جو مسلمان اس کے ساتھ ہوتے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیتے، اور فرماتے: ”جب تم اپنے مشرک دشمنوں کا سامنا کرنا تو انہیں تین چیزوں کی دعوت دینا، ان تینوں میں سے جس چیز کو وہ مان لیں تم ان سے اسے مان لینا اور ان سے رک جانا، (سب سے پہلے) انہیں اسلام کی جانب بلانا، اگر تمہاری اس دعوت کو وہ لوگ تسلیم کر لیں تو تم اسے قبول کر لینا اور ان سے لڑائی کرنے سے رک جانا، پھر انہیں اپنے وطن سے مہاجرین کے وطن کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دینا، اور انہیں یہ بتانا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لیے وہی چیز ہو گی جو مہاجرین کے لیے ہو گی، اور ان کے وہی فرائض ہوں گے، جو مہاجرین کے ہیں، اور اگر وہ انکار کریں اور اپنے وطن ہی میں رہنا چاہیں تو انہیں بتانا کہ وہ دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان پر اللہ کا وہی حکم چلے گا جو عام مسلمانوں پر چلتا ہے، اور فے اور مال غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں، اور اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو انہیں جزیہ کی ادائیگی کی دعوت دینا، اگر وہ لوگ جزیہ کی ادائیگی قبول کر لیں تو ان سے اسے قبول کر لینا اور جہاد کرنے سے رک جانا، اور اگر وہ جزیہ بھی دینے سے انکار کریں تو اللہ سے مدد طلب کرنا، اور ان سے جہاد کرنا، اور اگر تم کسی قلعہ والے کا محاصرہ کرنا اور وہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ کے حکم پر اتارو، تو تم انہیں اللہ کے حکم پر مت اتارنا، اس لیے کہ تم نہیں جانتے ہو کہ اللہ ان کے سلسلے میں کیا فیصلہ کرے گا، لیکن ان کو اپنے حکم پر اتارنا، پھر اس کے بعد ان کے سلسلے میں تم جو چاہو فیصلہ کرنا۔“ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: علقمہ کا کہنا ہے کہ میں نے یہ حدیث مقاتل بن حیان سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: مجھ سے مسلم نے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہ ابن ہیصم ہیں، بیان کیا انہوں نے نعمان بن مقرن ؓ سے اور نعمان ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے سلیمان بن بریدہ کی حدیث کے مثل روایت کیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sulaiman bin Buraidah reported on the authority of his father. When the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) appointed a Commander over an Army or a detachment, he instructed him to fear Allah himself and consider the welfare of the Muslims who were with him. He then said “When you meet the polytheists who are your enemy, summon them tone of three things and accept whichever of them they are willing to agree to, and refrain from them. Summon them to Islam and if they agree, accept it from them and refrain from them. Then summon them to leave their territory and transfer to the abode of the Emigrants and tell them that if they do so, they will have the same rights and responsibilities as the Emigrants, but if they refuse and choose their own abode, tell them that they will be like the desert Arabs who are Muslims subject to Allah’s jurisdiction which applies to the believers, but will have no spoil or booty unless they strive with the Muslims. If they refuse demand jizyah (poll tax) from them, if they agree accept it from them and refrain from them. But if they refuse, seek Allah’s help and fight with them. When you invade the fortress and they (its people) offer to capitulate and have the matter referred to Allah’s jurisdiction, do not grant this, for you do not know whether or not you will hit on Allah’s jurisdiction regarding them. But let them capitulate and have the matter refereed to your jurisdiction and make a decision about them later on as you wish. Sufyan (bin ‘Uyainah) said thah ‘Alqamah said “I mentioned this tradition to Muqatil bin Habban, He said “Muslim narrated it to me”. Abu Dawud said “He is Ibn Haidam narrated from Al Nu’man in Muqqarin from the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) like the tradition of Sulaiman bin Buraidah.